Maktaba Wahhabi

183 - 441
سے بے بہرہ تھے۔ جن لوگوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دامن عفت پر تہمت کے چھینٹے اڑانے سے گریز نہ کیا تھا ان کےلیے مسلم بن عقیل پر کسی تہمت کا لگا دینا کوئی بڑا کام نہ تھا، تاکہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر کے ان مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے جن کے حصول کی پہلی کوشش سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر نے کی تھی۔ چنانچہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح آج وہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بھی دھوکہ سے شہید کرنا چاہتے تھے تاکہ خلافت کا صحیح حق دار اپنے حق تک نہ پہنچ سکے۔ اسی ایک مذموم مقصد نے اعدائے صحابہ بالخصوص کوفی سبائیوں کی نظروں میں اس قدر قیمتی خون کو ارزاں کر دیا جو اپنی باطنیت کو مکر و فریب کے ساتھ امت کی جڑوں میں جاگزیں کرنا چاہتے تھے۔ پھر بات صرف سیّدنا حسین اور آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خون ناحق تک محدود نہ رہی بلکہ امت مسلمہ کی صفوں میں صراع و نزاع اور قتل و جدال تک جا پہنچی اور امت جملہ بلند ترین مقاصد میں لگنے کے بجائے باہم دیگر دست و گریبان ہو گئی۔ اس کے بعد ان سبائیوں نے اسلامی معاشرے کی فضا کو شک و ارتیاب، سب و شتم، ابرار اخیار پر لعن طعن، مسلمات کے انکار اور حقد و کینہ کے زہریلے اثرات سے مسموم کر کے رکھ دیا۔ کوفی سبائیوں نے جس فتنہ کی پہلی اینٹ رکھی امت مسلمہ آج تک اس کی لپٹوں سے جھلستی اور جلتی آ رہی ہے اور دن بدن ان کا سنت سے تمسک کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور بجائے اس کے کہ امت کو قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت ہو اور وہ ان سے دُور و نفور ہو، الٹا ان سے محبت و مودت کے پرچار میں لگ گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہ سبائی کوفی اخوت مواسات کی آڑ میں فاسد وسائل اور دجالانہ ذرائع کے ذریعے مسلمانوں پر کتاب و سنت کو اور زیادہ ملتبس و مشتبہ کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ و العیاذ باللّٰہ۔ مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی شیعی کتب و مصادر کی روشنی میں : ہم ان جملہ واقعات و حوادث کو خود شیعہ کتب سے ثابت اور بیان کرتے جائیں گے۔ چنانچہ رضا حسین صبح حسینی لکھتا ہے: ’’مسلم نصف شعبان کو مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے اور پانچ شوال کو کوفہ پہنچ گئے۔ ان کے آنے کی خبر سن کر لوگ بیعت کرنے کے لیے ان پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ اٹھارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی۔ شعبی کی روایت میں یہ تعداد چالیس ہزار ہے۔‘‘[1] ہاشم المعروف حسنی کہتا ہے: ’’بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عقیل اپنے اس سفر سے زیادہ پر امید نہ تھے کیونکہ وہ
Flag Counter