جائیں کہ کوفیوں نے ان کے ساتھ دروغ بیانی اور مکر و فریب سے کام لیا ہے اور ہاں مجھ پر قرض بھی ہے۔ میری طرف سے اسے تم ادا کر دینا اور میری لاش کو ابن زیاد سے لے کر دفن کر دینا (تاکہ وہ اسے سولی پر نہ لٹکائے رکھے)۔‘‘
جب ابن زیاد نے عمر بن سعد سے پوچھا کہ مسلم نے کیا کہا ہے اور عمر نے سب بتلا دیا تو ابن زیاد کہنے لگا:
’’مسلم کا مال تیرا ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔ رہے حسین ، تواگر انہیں اب چھوڑ دیا تو دوبارہ کبھی ان پر قابو نہ پا سکیں گے۔ اور رہی مسلم کی لاش، تو جب انہیں قتل کر دیا جائے گا تو ہمیں ان کی لاش سے کوئی واسطہ نہیں (جو چاہے کر لینا۔ یعنی تمہیں مسلم کی لاش دفن کر دینے کی اجازت ہے۔)۔‘‘
رب تعالیٰ مسلم پر رحم فرمائے، پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔ عمر بن سعد نے انہیں کفنایا بھی اور دفنایا بھی اور ان کا قرض بھی چکا دیا اور ایک اونٹنی سوار کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف مسلم کے قتل کی خبر دے کر بھیجا۔ وہ کوفہ سے چار مراحل کے فاصلہ پر سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے جا ملا۔[1]
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ان متضاد و مخالف خبروں کے پہنچنے پر بے حد متذبذب اور پریشان ہو گئے۔ یہ آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہ تھی، ان کوفیوں کی یہ قدیم روش تھی، اس سے قبل انہی لوگوں نے سیّدنا عثمان اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں افواہوں کا طومار باندھا تھا۔ انہی لوگوں نے سیّدنا علی، سیّدنا طلحہ و سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان متضاد خبریں پھیلا کر غلط فہمیاں پیدا کی تھیں ۔
ان ہی لوگوں نے اہل مصر کی طرف وہ سوار روانہ کیا تھا جو کبھی چھپتا تو کبھی سامنے آتا تھا۔ کبھی قریب ہو کر ان کی باتیں سنتا تو کبھی انہیں دل آزار باتیں کرتا۔ بالآخر جب اسے پکڑ کر اس کی تلاشی لی گئی تو اس کے پاس سے وہ رسوائے زمانہ خط نکلا جس میں سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عفیف دامن پر زمین و آسمان کو ڈھا دینے والی تہمت کا ذکر تھا کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل مصر کے قتل کر دینے کا حکم دیا ہے۔ اہل مصر نے یہیں سے ایک نئے فتنہ کی بنیاد رکھ دی اور اس بات کی تصدیق تک نہ کی کہ یہ خط سچا ہے یا جھوٹا اور مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ ایک تو اس میں خود ان کی فتنہ کی خوگر فطرت کی تسلی کا سامان تھا، دوسرے ان اہل مصر میں سے بے شمار لوگ ابن سبا کی باطنی دعوت کے علم بردار بھی تھے۔ ان کی حماقت و سفاہت پر اور کیا کہیے کہ انہوں نے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو تو جھٹلایا اور اسلام کے دعوے دار ایک سابقہ یہودی کی بات کو من و عن تسلیم کر لیا اور ان لفنگوں کی ہاں میں ہاں ملائی جو عقل اور دین و دیانت سب
|