Maktaba Wahhabi

377 - 441
خاتمہ ٭ واضح ہوا کہ رب تعالیٰ نے ان رافضیوں کی تدبیروں کو ناکام کیا جنہوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے قتل کیا تاکہ امت کی وحدت ختم ہو، لیکن رب تعالیٰ نے اپنی حکمت سے امت میں ایک بار پھر وحدت پیدا فرما دی اور اس وحدت کا شرف بنو ہاشم کے چشم و چراغ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اور بنو امیہ کے چشم و چراغ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا جو دنوں حلم و کرم کے پیکر تھے۔ اس اتفاق نے اعدائے صحابہ پر شقاق و افتراق پھیلانے کے سب دروازے بند کر دئیے۔ اس بے مثال اتفاق و اتحاد نے اسلامی فتوحات کا دائرہ بے حد وسیع کر دیا اور مشرق و مغرب سنت نبویہ کے انوارات سے روشن ہو گئے۔ جناب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اس اتفاق و اتحاد کے ایک اہم ترین ستون تھے جو خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں اخلاص اور جہاد کے لبادوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔ امت مسلمہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک اسی حال پر زندگی گزارتی رہی جو امت پر بے حد شفیق تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بھیڑ کی طرح چھوڑ جاؤ ں جس کا چرواہا نہ ہو۔‘‘[1] ٭ جب امت کے سربرآوردہ لوگوں کے مشورہ، اہل قوت و شوکت کی نصرت و تائید اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سکوت اور قول کے ساتھ یزید کی خلافت طے ہو گئی تو سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بصیرت سے بھانپ لیا کہ اعدائے صحابہ اور منافقوں کے دل ہرگز بھی سکون سے نہ رہیں گے اور وہ ازسر نو فتنہ کی آگ ضرور بھڑکائیں گے اور آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ان فتنہ پردازوں میں بعض کا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعلق ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی مکر ضرور کریں گے اور اسی مکر کے ذریعے ان کی جان لینے کی کوشش بھی کریں گے۔ اسی لیے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو شدت کے ساتھ جناب حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ کی تاکید کی اور خبردار کیا کہ وہ دشمنانِ اسلام کے تیار کیے سیاسی جالوں میں پڑ کرہلاک ہونے سے بچے۔
Flag Counter