کیونکہ سیّدنا حسین اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان محبت و مودت اور عقیدت و احترام کا بے پناہ تعلق قائم تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا وفد شام سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کے ساتھ مل کر غزوۂ قسطنطنیہ میں بھی شرکت کی تھی۔ عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما شام گئے تو جناب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی خدمت میں ایک ہی وقت میں دو لاکھ درہم پیش کیے۔[1]
یہ نصوص بتلاتی ہیں کہ خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دَور میں سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول میں زبردست عقیدت و محبت کا تعلق تھا۔ اس کی تاکید و تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ خود جناب حسین رضی اللہ عنہ نے اسبابِ خروج کی تحقیق نہ کی تھی بلکہ فتنہ پروروں نے آپ پر خروج کرنے کا اصرار کیا تھا اور اپنے مکر و باطنیت کے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے آپ پر معاملہ ملتبس کر دیا تھا حتیٰ کہ آپ یہ اعتقاد کرنے لگے کہ خروج کے جواز کے اسباب مہیا ہو گئے ہیں اور یہ خروج امت کی اصلاح اور ان کے حال کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ جنابِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما عالم الغیب نہ تھے اور نہ آپ اس سوء ظن کا شکار ہی تھے جو اعدائے صحابہ کے عقیدہ و عمل کا اساسی رکن ہے۔ ان لوگوں کی کل کائنات بغض صحابہ ہے اور اسی بغض نے انہیں آلِ بیت رسول کے پاک خونوں سے اپنے ناپاک ہاتھ رنگنے پر اکسایا تھا اور آج تک یہ طبقہ مسلمانوں کے ساتھ اسی مکر و فریب اور بغض و نفرت کے رویے کو روا رکھے ہوئے ہے۔
سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا کوفہ کی طرف خروج شیعی روایات کی روشنی میں :
عباس قمی اور عبدالہادی صالح لکھتا ہے:
’’حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) نے جب مکہ سے خروج کا ارادہ کیا تو پہلے طواف اور سعی کی، پھر بال کتروائے اور احرام کھول کر حلال ہوئے کیونکہ آپ کو مکہ میں اپنی گرفتاری یا قتل ہو جانے کے ڈر سے حج پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر ۸ذی الحجہ کو آپ نے اپنے اصحاب کو جمع کر کے ان میں یہ خطبہ دیا:
’’سب تعریفیں اسی اللہ کی ہیں ، وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ نیکی پر لانے کی قوت صرف اللہ کو ہے۔ اللہ کا درود و سلام ہو اس کے رسول پر۔ اللہ نے اولاد آدم کی موت کا خط کھینچ دیا ہوا ہے اور موت کا پھندا بندوں کے گلے میں ڈال دیا ہوا ہے اور میں اپنے اسلاف کی شہادتوں پر اس طرح غم زدہ نہیں جس طرح یعقوب( علیہ السلام )، یوسف( علیہ السلام ) کے فراق میں غمگین و مشتاق تھے۔ کل قتل
|