ہاں ۔ سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایسا نہ کیجیے۔ یہ عراقی آپ کے باپ کے قاتل ہیں جنہوں نے آپ کے بھائی کے پیٹ میں کدال ماری تھی۔ اگر آپ ان کے پاس چلے گئے تو وہ آپ کو قتل کر دیں گے۔‘‘[1]
جب دوبارہ ملاقات ہوئی تو سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’اگر آپ خود تو حرم میں ٹھہرتے جبکہ اپنے قاصدوں کو بلاد و امصار میں پھیلا دیتے اور اپنے عراقی شیعوں کو خط لکھ کر اپنے پاس آنے کو کہتے تو مناسب تھا۔ یوں آپ مضبوط رہتے۔‘‘[2]
سیّدنا ابن عباس اور سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما دونوں کی رائے ایک تھی اور دونوں نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو مکہ ٹھہرنے اور کوفہ نہ جانے پر آمادہ کرنے کی ازحد کوشش کی۔ لیکن کوفی غداروں نے انہیں ایک منظم اور مکارانہ منصوبے کے تحت عراق بلوا ہی لیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ :
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’تقدیر حسین رضی اللہ عنہما کو جلد لے گئی۔ اللہ کی قسم! اگر میں انہیں پا لیتا تو کبھی جانے نہ دیتا۔ ہاں وہ ہی مجھ پر غالب آ جاتے تو اور بات تھی۔‘‘[3]
قتلِ حسین رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو رنج و الم اور حزن و ملال کا مرکز بنا دیا تھا۔ وہ اس مصیبت عظمیٰ کو یاد کر کے حسرت کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس اس گہرے غم کو غلط کرنے کے لیے اس بات کو یاد کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا کہ انہوں نے خانوادۂ رسول کے اس چراغ کو کوفہ جانے سے روکنے کی نہایت بلیغ سعی کی تھی اور اپنا سارا زور خرچ کر دیا تھا لیکن جناب حسین رضی اللہ عنہ کے پختہ عزم کے سامنے عاجز آ گئے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خروج کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’حسین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کوفہ خروج کر جانے کی بابت مشورہ مانگا تو میں نے کہا: اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کے سر کو پکڑ کر آپ کو روک لوں ۔‘‘ اس پر سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں فلاں فلاں جگہ مارا جاؤ ں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں حرم کی حرمت کو حلال کروں ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’یہی ایک بات یاد کر کے میں اپنے دل کو سیّدنا
|