Maktaba Wahhabi

262 - 441
ہیں لیکن امت مسلمہ پر قیامت بھی گزر جائے تو عقل کے پتلے بن کر دوسروں کو یہ فہمائش کرتے نظر آتے ہیں کہ جی! جابر و قاہر بادشاہوں پر لب کشائی موت کو دعوت دینا ہے، اس لیے جو ہو رہا ہے، ہونے دو، عافیت اسی میں ہے کہ چپ رہو۔ ان اعدائے صحابہ کا یہی موقف قرآن کے اوراق کے سامنے شہید کر دئیے جانے والے خلیفہ راشد امیر المومنین سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور مسجد میں دھوکہ سے شہید کر دئیے جانے والے خلیفہ راشد امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ہے۔ انہی فتنہ پردازوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو جھوٹے خطوط بھیج بھیج کر اپنے مقتل کی طرف نکلنے پر مجبور کیا۔ پھر جو ہوا سو ہوا اور امت آج تک اس دل فگاروجگر پاش اور روح فرسا واقعہ کی پاداش میں بدترین تفرقہ اور اختلاف کا شکار چلی آ رہی ہے، اس کی وحدت کا شیرازہ بکھر گیا ہے، اس کے عقائد میں وہ دراڑیں ڈال دی گئی ہیں جو بھرنے میں نہیں آ رہی ہیں اور امت سنت و الجماعت کا بے علم اور جاہل طبقہ ان کے خود ساختہ عقائد کی بلی چڑھتا جا رہا ہے۔ خونِ حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں صدیوں سے امت مسلمہ کے صلحاء، اتقیاء، علماء اور قائدین کا بے محابا خون بہایا جا رہا ہے۔ ان جملہ تفصیلات کی روشنی میں ہم پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٭ … قتل حسین رضی اللہ عنہ کی پہلی ذمہ داری کوفی سبائی رافضیوں کے سر ہے۔ ٭ … پھر امیر کوفہ ابن مرجانہ فارسیہ عبیداللہ کے سر پر ہے جو انہی غوغائی رافضی سبائیوں کے عقائد و اخلاق کی فضاؤ ں میں پلا بڑھا اور جوان ہو کر انہی کے رنگ میں پوری طرح رنگا گیا۔ جس نے ان کوفیوں سے سب سے زیادہ جو بات سیکھی، وہ تھی حضرات صحابہ کرام اور آل بیت رسول سے بغض و عداوت اور اسی بغض و عداوت نے اس کے سامنے نواسہ رسول کے قتل کو مزین کر کے پیش کیا اور بالآخر وہ یہ کام کر گزرا۔ اس کے بعد یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جو بھی ان دونوں طبقوں کو اس جرم سے بری قرار دینے کی کوشش کرتا ہے وہ دراصل باطل کے دفاع میں لگا ہے تاکہ امت فتنوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتی اور سر پٹکتی رہے اور کینوں کی دلدل میں دھنسی رہے جبکہ دوسری طرف حقیقی مجرم فتنوں کی آگ کو مزید بھڑکانے اور سازشوں کے جال بچھانے کے لیے آزاد دندناتا پھرے۔ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی مصیبت عظمیٰ اور امت مسلمہ کی شرعی ذمہ داریاں اور غم حسین میں تخفیف کے لیے شرعی نصیحتیں ہر مومن کا اس بات پر پورا یقین ہے کہ رب کی تقدیر نافذ ہو کر رہتی ہے، اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ارشاد
Flag Counter