طلسماتی رنگ میں پیش کیا ہے اور ان کی ایسی فاسد توجیہات اور ان کی بابت ایسے بارد اقوال پیش کیے ہیں جن کو روافض، مستشرقین اور لامذہب ملحدین نے امت کی وحدت پر حملہ کرنے کا تباہ کن ہتھیار بنا لیا ہے اور آج اس ہتھیار کو لے کر یہ نامراد طبقے حق کی بیخ کنی میں لگے ہیں ۔
اس طبقہ کی جانب داری، غفلت، سوء فہم، کج فکری اور حالات و واقعات کی خلاف واقعہ منظر کشی کی عادت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ جب بات سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی آتی ہے جو میدان کربلا میں شہید ہوئے نہ کہ کسی مسجد اور اس کے محراب میں ، تو حسین رضی اللہ عنہما کے نام کی غیرت پر وہ شور مچایا جاتا ہے کہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ لیکن جب بات آتی ہے شہید منبر و محراب، جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر و نصیر، خلیفہ راشد، امیر المومنین عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ عنہ کے قاتل کی، جن کو بلا دلیل و تاویل غدر کرتے ہوئے ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت نماز کے دوران میں عین مسجد نبوی میں اور محراب رسول میں ظلمًا شہید کر دیا گیا، جو ان کے زمانہ میں روئے زمین کے ہر فرد بشر سے افضل و بزرگ تھے، تو ان کی غیرت و حمیت پیوند خاک ہو جاتی ہے اور خلیفہ مسلمین پر ہونے والے اس ظلم و ستم کے بارے میں ایک حرف بھی ان کے لبوں پر نہیں آتا جنہوں نے امت مسلمہ کو رفعتوں اور عزتوں کی چوٹیوں پر جا بٹھایا تھا۔
قاتلان حسین پر بے محابا غل مچانے والوں کا مشیر رسول کے مجوسی قاتل ابو لولو فیروز دیلمی پر لبوں کو سی لینا کسی اور امر کی غمازی کرتا ہے اور ان کے اس ’’فکری سکوت‘‘ کے تانے بانے کہیں اور جا ملتے ہیں !!
صورتِ حال یوں ہے کہ
اب نہ تو یہاں کوئی شور و غل ہے نہ ہنگامہ
نہ اظہار غم ہے اور نہ رونا دھونا
نہ جلوس ہیں اور نہ قاتل فاروق پر سب و شتم اور لعن طعن!!
تو کیا اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ
’’وہ قاتل ’’مجوسی ایرانی اور فارسی‘‘ تھا۔
کیا اب بھی تاریخ کا آئینہ صاف نہیں ہوتا اور اس کے سامنے سے تشکیک کی اڑائی گرد نہیں چھٹتی اور یہ بات الم نشرح ہو کر سامنے نہیں آتی کہ مذہبی رجحانات کے پیچھے اصل مقصد اسلام کی تاریخ میں علمی اور فکری تشکیک پیدا کرنا ہے۔
ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے کھیتوں سے ایک بکری بھی گزر جائے تو اسے مار بھگانے کو دوڑ پڑتے
|