کوفہ شیعیت کا گڑھ:
باقر شریف قرشی کہتے ہیں : کوفہ شیعہ کی جنم بھومی اور علویوں کا وطن ہے کوفہ نے متعدد مواقع پر اہل بیت کے ساتھ اپنے اخلاص کا اعلان کیا ہے۔[1]
شیخ باقر یہ بھی لکھتے ہیں : کوفہ میں تشیع کا بیج حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں ہی بو دیا گیا تھا۔[2]
شیخ محمد تیجانی سماوی لکھتے ہیں : ’’ابوہریرہ کوفہ میں داخل ہوئے جو شیعوں کا گڑھ اور علی بن ابی طالب( رضی اللہ عنہ ) کا مرکز ہے۔‘‘[3]
کوفہ، غدر و خیانت کا مرکز:
شیخ جواد محدثی لکھتا ہے: تاریخ کوفہ کی شہرت غدر و خیانت اور عہد شکنی کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے۔ بہرحال تاریخ اسلام اہل کوفہ کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتی۔[4]
شیخ جواد یہ بھی لکھتا ہے: اہل کوفہ کی نفسیاتی اور اخلاقی خصوصیات کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے: قول و فعل میں تضاد، مزاج میں تلون اور عدم استقلال، غیر مستقل عادات، حکمرانوں کے خلاف سرکشی، موقع پرستی، بد اخلاقی، حرص، طمع، افواہوں پر یقین اور قبائلی عصبیتوں کی طرف میلان۔‘‘
یہ ہیں اہل کوفہ اور ان کی تصویر کا ایک رخ۔
ان کی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اہل کوفہ متعدد قبائل سے مل کر بنے ہیں ۔ یہ ایک جد کی اولاد نہیں ۔ ان سب اسباب و وجوہات نے جمع ہو کر اہل کوفہ کو سلبی، متضاد اور غیر صالح صفات کا مجموعہ بنا دیا جس کے نتیجہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھوں دو دفعہ شدید تکلیف اٹھائی اور بالآخر انہی کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ پھر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی غداری کا زخم سہنا پڑا، پھر ان ہی کوفیوں کے درمیان مسلم بن عقیل مظلومانہ شہید ہوئے اور اسی کوفہ کے قریب کوفیوں کے ہاتھوں میدان کربلا میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ پیاسے جامِ شہادت نوش کر گئے۔[5] شیخ حسین کورانی کوفہ کی ہیئت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :
ایک کوفی کے ایمان کی نمایاں خصوصیات کیا ہو سکتی ہیں ؟ سنیے! ان کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے، لیجیے:
(۱)… اسلام کی مدد سے دست کش ہو کر بیٹھ رہنا۔
|