Maktaba Wahhabi

338 - 441
تشیع کی بے حرمتی کے وقت زنجیر زنی اور سینہ کوبی کی حرمت: اہل تشیع ہر اس کام سے کوسوں دور بھاگتے ہیں جو ان کے مذہب کی حقیقت کا پردہ چاک کرے چاہے وہ فعل ان کے نزدیک جائز بھی ہو۔ تاکہ اپنے مخالفوں کو مسلسل دھوکہ میں رکھا جا سکے اور ان کے سامنے تشیع کی صورت کو ملمع کر کے پیش کیا جا سکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال شیعہ کے عالم کبیر آیت اللہ العظمی ابو القاسم الخوئی کا زنجیر زنی وغیرہ کے بارے میں موقف ہے۔ چنانچہ محمد حسین فضل اللہ لکھتا ہے: ’’حتی کہ سید خوئی نے بھی ’’المسائل الشرعیۃ‘‘ میں ان باتوں کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے جس کو امریکہ اور کینیڈا میں جماعت اسلامیہ نے شائع کیا ہے۔ چنانچہ جب شیخ خوئی سے زنجیر زنی وغیرہ کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو موصوف نے اس شرط پر ان کو ناجائز قرار دیا کہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہوں اور اس سے شیعیت کی بے حرمتی ہوتی ہو۔‘‘[1] دیکھ لیجیے کہ محض مذہب کی بے حرمتی پر ایک مسلمہ جائز امر کو حرام قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ میں ہم نے شیخ محمد حسین نائینی کے حوالے سے شیعہ کی جملہ رسومات کے جواز کا فتوی نقل کیا ہے۔ ان متضاد فتاوی کی روشنی میں ایک آدمی کے لیے یہ سمجھنا ازحد دشوار ہو جاتا ہے کہ یہ شیعہ بالآخر حرام کن باتوں کو قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک جائز امور کون کون سے ہیں ۔ کیونکہ شیعوں کا تقیہ اور کتمان کا عقیدہ مخالفوں پر ان کے مذاہب و عقائد کو ملتبس کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک آدمی شیخ خوئی سے سینہ کوبی اور زنجیر زنی وغیرہ کا فتویٰ پوچھے گا تو موصوف اس کو اپنے نزدیک حرام قرار دے دیں گے کہ اس میں شیعہ مذہب کی بے حرمتی ہے ناکہ یہ اسی طرح حرام ہے جس طرح دوسرے اس کو حرام سمجھتے ہیں ۔ میں نے بارہا شیعہ علماء سے سینہ کوبی اور زنجیر زنی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کو عوام کا فعل قرار دے کر حرام بتلایا۔ لیکن اس وقت سخت حیرت ہوتی ہے جب یہی فتویٰ دینے والے شیعہ علماء حسینی ماتمی مجالس اور جلوسوں میں اور حسینی شعائر میں سب سے آگے آگے شریک نظر آتے ہیں ۔ سینہ کوبی، زنجیر زنی وغیرہ کو دیکھنے کے باوجود ان پر انکار نہیں کرتے۔ جس سے مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ دراصل یہ لوگ دوسروں کے سامنے اپنے صحیح اور مسلمہ عقائد کو ظاہر کرنا ہی نہیں چاہتے اور اس سے بھی زیادہ تعجب خیز امر یہ ہے کہ جب ان کی حقیقت دوسروں پر عیاں ہوتی ہے تو ذرا شرمندہ نہیں ہوتے۔ مناسب ہے کہ حسینی شعائر کی حرمت کو اب خود شیعہ مآخذ و مصادر سے بھی بیان کر دیا جائے۔
Flag Counter