Maktaba Wahhabi

337 - 441
کیا ہے۔موصوف لکھتا ہے: ’’نصوص سے مستفاد ہوتا ہے کہ حسینی شعائر کی زیارت جائز ہے، چاہے اسے اس بات کا یقین ہو کہ عزداری کے اس طریق سے وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔‘‘[1] شیخ مرتضی فیروز آبادی لکھتا ہے: ’’سینہ کوبی کرنا گزشتہ صدیوں سے اہل تشیع کا دستور چلا آتا ہے، متقدمین و متاخرین اکابر فقہائے شیعہ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ کسی ایک کے بارے میں بھی نہ آج تک سنا گیا اور نہ سنا جائے گا کہ وہ اس کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیتا ہے اور اس پر انکار کرتا ہے اور بالفرض اگر کسی کو ان حسینی شعائر کے جواز میں شبہ ہے یا کسی کی بد سلیقگی عدمِ جواز کی داعی بنتی ہے تو یہ نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے۔‘‘[2] شیخ محمد حسین فضل اللہ سینہ کوبی کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کرتا ہے: ’’ہمارے نزدیک شعائرِ حسینیہ غم اور حزن و ملال کے اظہار اور آل بیت حسین کے ساتھ ولاء کے اقرار کی تعبیر کے مختلف اسالیب ہیں اور تعبیر کے اسالیب مختلف زمانوں میں بدلتے رہتے ہیں تو جیسے رونا غم کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، اسی طرح مناسب حد تک سینہ کوبی کرنا بھی غم کے اظہار کا ایک اسلوب ہے۔‘‘[3] موصوف ایک اور جگہ لکھتا ہے: ’’اس بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ولاء و محبت کے بقدر سینہ کوبی کر سکتا ہے البتہ یہ شرط ہے کہ سینہ کوبی تکلیف دہ نہ ہو۔‘‘[4] آگے لکھتا ہے: ’’نرم سینہ کوبی یہ ہے کہ تو سینہ پیٹتے وقت واقعۂ کربلا کے المیہ کو یاد کرے۔ لہٰذا غم کے اظہار کا ہر وہ طریق جائز ہے جو بدن کے لیے ضرر رساں نہ ہو۔‘‘[5]
Flag Counter