Maktaba Wahhabi

135 - 441
اہل تشیع حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و احفاد سے نفرت ہے۔ مناسب ہے کہ اس غلط فہمی اور خلاف حقیقت بات کی وضاحت کر دی جائے۔ چنانچہ ذیل میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی ذریت کے کچھ فضائل و مناقب درج کیے جاتے ہیں ، جس سے اہل سنت والجماعت کی سیّدنا علی و آل علی رضی اللہ عنہم سے محبت عیاں ہے: ۱۔ سیّدنا علی بن ابی طالب: صحیحین میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن فرمایا: ’’یہ پرچم کل میں ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر رب تعالیٰ (خیبر کو) فتح کر دیں گے، اسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ وہ رات لوگوں نے اسی بارے میں باتیں کرتے گزار دی کہ دیکھیں یہ پرچم کل کسے ملتا ہے؟ جب صبح ہوئی تو سارے کے سارے لوگ اس پرچم کے ملنے کی امید پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھیں دکھ رہی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں میرے پاس بھیجو۔‘‘ پس انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا اور ان کے لیے دعا (خیر) فرمائی جس سے ان کی آنکھیں ایسے ٹھیک ہو گئیں جیسے کبھی خراب ہوئی ہی نہ تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پرچم عطا فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! (کیا) میں ان سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سیدھے چلتے جاؤ یہاں تک کہ ان کے آنگن میں جا اترو پھر انہیں اسلام (قبول کرنے) کی دعوت دو، اور انہیں بتلاؤ کہ ان پر اللہ کا کیا حق واجب ہے۔ اللہ کی قسم! تیرے ذریعے سے اللہ کا ایک آدمی کو ہدایت دے دینا یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘[1] یہ حدیث سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت و منقبت کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ اس حدیث میں خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی خبر اور شہادت دے رہے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ہیں ۔
Flag Counter