عہد و وفا اور اصحاب و آل رسول کی حرمت سے کیا واسطہ؟!!
واقعات کا سلسلہ آگے بڑھانے سے قبل سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے میدان کربلا میں نزول اور ما بعد کے واقعات سے متعلقہ باتوں کو کتب شیعہ کے حوالے سے بھی پڑھ لیا جائے تاکہ امت کے سامنے منافقین کی تصویر کا ہر ہر رخ سامنے آتا رہے۔
سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا نزول سرزمینِ کربلا میں شیعی روایات کی روشنی میں :
عبدالرزاق موسوی المقرم لکھتا ہے: ’’ حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) کا کربلا میں نزول محرم ۶۱ ہجری کو ہوا۔‘‘[1]
عباس قمی لکھتا ہے:
’’جان لو کہ حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) کے میدانِ کربلا میں فروکش ہونے کے دن میں اختلاف ہے۔ صحیح تر قول ۲ محرم ۶۱ ہجری کا ہے۔ جب آپ میدانِ کربلا پہنچے تو پوچھا: ’’یہ کون سی سرزمین ہے؟ عرض کیا گیا: ’’یہ کربلا ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں کرب اور بلا سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘[2]
محمد تقی آل بحر العلوم لکھتا ہے کہ اربابِ سیرو قتال لکھتے ہیں :
’’حسین علیہ السلام جب کربلا اترے تو آپ نے اپنے اصحاب اور آلِ بیت کو جمع کیا اور ان میں کھڑے ہو کر خطبہ دیا۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
’’اما بعد! ہم پر جو مصیبت اتری ہے، وہ تم لوگ دیکھ ہی رہے ہو۔ دنیا بدل گئی، اوپری ہو گئی اور اس کی نیکی نے پیٹھ پھیر لی۔ یہ دنیا جلد ختم ہو گئی اور اس کے چاہنے والوں کو کچھ نہ ملا اور اس میں صرف اتنا باقی رہ گیا جتنا برتن کے پیندے میں اس کے خالی کرنے کے بعد رہ جاتا ہے اور زندگی کسی پراگندہ آب و ہوا والی جگہ کی طرح بے حد بے وقعت ہو گئی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر چلا نہیں جا رہا، باطل سے رکا نہیں جا رہا تاکہ ایک مومن کو اپنے رب سے ملاقات کی تمنا ہو، پس اب تو میرے نزدیک موت میں سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے میں نری اکتاہٹ ہے۔‘‘[3]
|