دکتور احمد راسم نفیس سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اس تقریر کو نقل کرتا ہے[1] جس میں آپ اپنے ان شیعہ کو رب کا واسطہ دیتے ہیں جنہوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ آپ کی مدد کریں لیکن بعد میں آپ کا ساتھ چھوڑ گئے۔ چنانچہ احمد راسم نفیس لکھتا ہے:
’’قوم نے آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیا تاکہ آپ ان تک حجت نہ پہنچا سکیں اور نہ ان پر حجت قائم کر سکیں جس پر آپ نے انہیں غصہ ہو کر یہ کہا:
’’اگر تم لوگ ذرا دیر کو خاموش ہو کر میری بات سن لو تو اس میں کیا حرج ہے؟ میں تم لوگوں کو راہِ ہدایت کی طرف بلا رہا ہوں ۔ پس جس نے میری بات مانی وہ ہدایت پانے والوں میں سے ہو گا اور جس نے میری بات نہ مانی وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہو گا۔ اب تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ تم سب کے سب میرے امر کے نافرمان اور میری بات کو سننے سے گریز کرنے والے ہو۔ تمہاری تنخواہیں حرام سے گراں بار اور تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہیں ۔ اللہ نے تمہارے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں ۔ تم لوگوں کی ہلاکت ہو! تم لوگ خاموش ہو کر میری بات کیوں نہیں سنتے؟‘‘ اس پر لوگ خاموش ہو گئے، تب آپ نے فرمایا:
’’اے (کوفی) جماعت! تمہاری ہلاکت ہو، وہ وقت یاد کرو جب تم لوگوں نے پکار پکار کر اور گڑگڑا کر ہمیں مدد کے لیے پکارا تھا۔ پھر جب ہم تمہاری مدد کو کمربستہ ہوئے تو تم لوگوں نے ہماری گردنوں پر تلواریں سونت لیں ۔ تم لوگوں نے ہم پر فتنوں کی اس آگ کا ایندھن اکٹھا کیا جو ہمارے اور تمہارے مشترکہ دشمن نے چنا تھا۔ پس تم اپنے دوستوں کے خلاف ہو گئے اور ان کے خلاف ان کے دشمنوں کے دست و بازو بنے جبکہ تم لوگوں نے عدل کو چھوڑا اور حرام دنیا کی آرزو رکھی اور خسیس زندگی کی طمع کی۔ تمہارا ناس ہو، بے شک تم اس امت کے طاغوت، حق جماعتوں سے منحرف، کتاب اللہ کو پھینک مارنے والے، شیطان کی پھونک، گناہوں کی پشت پناہ، کتاب اللہ کے مجرم، سنتوں کو مٹانے والے اور پیغمبروں کی اولادوں کے قاتل ہو۔‘‘[2]
مذکورہ مصنف نے جن الفاظ کو نقل کیا ہے، ان کے اصل خطبہ کو ان کے شیخ علی بن موسی بن طاؤ وس نے روایت کیا ہے[3] اور آگے اس خطبہ کو عبدالرزاق مقرم،[4] فاضل عباس حیاوی،[5] ہادی
|