Maktaba Wahhabi

216 - 441
نجفی،[1] حسن صفار،[2] محسن الامین،[3] عباس قمی[4] اور دوسرے متعدد شیعہ مصنّفین نے نقل کیا ہے۔[5] قارئین کرام! دیکھ لیجیے کہ جناب سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے شیعوں کو کن صفاتِ محمودہ و ستودہ کے ساتھ یاد کیا ہے! ٭ … تمہاری تنخواہیں حرام سے گراں بار ہیں ۔ ٭ … تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہیں ۔ ٭ … اور اللہ نے تمہارے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں ۔ یہ بھی ملاحظہ کر لیجیے کہ یہ نواسۂ رسول کے وہ شیعہ ہیں جنہوں نے بڑے اصرار اور بے قراری کے ساتھ انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی اور پھر کمال ڈھٹائی سے ان کا ساتھ بھی چھوڑ دیا اور ان کے گرد فتنوں کے الاؤ جلا دئیے۔ بے شک یہ لوگ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی زبانی: ٭ … امت کے طاغوت ٭ … حق پرستوں سے منحرف ٭ … کتاب اللہ کو ٹھکرانے والے ٭ … گناہوں کے پشت پناہ ٭ … کتاب اللہ کے مجرم ٭ … سنتوں کو مٹانے والے اور ٭ … پیغمبروں کی اولادوں کو قتل کرنے والے ہیں ۔ اب ہم اپنی گزشتہ بحث کی طرف لوٹتے ہیں ۔ تو بات چل رہی تھی ابن زیاد کے عیار و مکار اور بد باطن حواریوں کی جنہوں نے ابن زیاد کو اکسا اور بھڑکا کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ابن زیاد سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی تینوں پیش کشوں کو ٹھکرا دے۔ یوں امت مسلمہ کی تاریخ کے اس فیصلہ کن موقعہ پر اشرار فجار کی رائے ابرار اخیار کی تجاویز پر غالب آ گئی۔ بے شک اس موقعہ پر امت مسلمہ کی صلاح و فلاح صلح اور مصالحت میں تھی۔ جس میں باہمی الفت و مودت، صفوں کے اتحاد
Flag Counter