ان کے جھوٹوں پر بطور مثال ہم یہ روایت ذکر کریں گے کہ واقعہ کربلا میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد جب قیدی خواتین کو بے لباس کر کے اونٹوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار کیا گیا تو خراسانی اونٹوں کی کوہانیں اگ آئیں تاکہ اس طرح ان کی شرم گاہوں کو آگے پیچھے سے ڈھانپا جا سکے۔[1]
ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’روافض نے یوم عاشوراء کے بارے میں بڑی مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے مثلاً جو بھی پتھر اٹھایا جاتا اس کے نیچے خون نظر آتا، آسمان کے کنارے سرخ ہو گئے، سورج طلوع ہوتا تو اس کی شعائیں خون کی طرح سرخ ہوتیں ، آسمان خون کے لوتھڑے کی طرح ہو گیا، ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے اور آسمان نے سرخ خون برسایا اور یہ کہ اس سے قبل آسمان پر شفق کی سرخی نہیں ہوتی تھی۔ جب وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو قصر امارت میں لے کر گئے تو اس کی دیواریں خون برسانے لگیں اور زمین تین روز تک تاریک رہی، بیت المقدس کے جس پتھر کو بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے سے تازہ خون نمودار ہو جاتا، حسین رضی اللہ عنہ کے جن اونٹوں کو انہوں نے مال غنیمت کے طور پر سمیٹا جب انہوں نے ان کا گوشت پکایا تو وہ اندرائن کی طرح کڑوا ہو گیا اور اس قسم کے دیگر اکاذیب اور موضوع احادیث وغیرہ جن میں سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے۔‘‘[2]
حسین رضی اللہ عنہما کے قاتلوں سے اللہ تعالیٰ کا انتقام:
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں جو امور و فتن بیان کیے گئے ان میں سے زیادہ تر صحیح ہیں ، جن لوگوں نے آپ کو قتل کیا ان میں سے کوئی بھی اس دنیا میں ذلت و آفت اور مصیبت سے بچ نہ سکا ان میں سے زیادہ تر کو جنون لاحق ہو گیا اور کوئی کسی موذی مرض میں مبتلا ہو گیا۔ روافض نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں بے شمار جھوٹ وضع کیا اور جھوٹی خبریں پھیلائیں ، ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ کافی ہے اور اس کا بعض حصہ محل نظر ہے، اگر ابن جریر وغیرہ نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں بھی اسے ذکر نہ کرتا، اس کا زیادہ تر حصہ ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی روایات پر مبنی ہے، جو شیعہ تھا اور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف الحدیث ہے، لیکن وہ حافظ مورخ ہے اور اس کے پاس وہ چیزیں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد آنے والے اکثر مصنّفین اس کی اتباع کرتے ہیں ۔‘‘[3]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
|