(۳) صرف یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا۔ یہ ان احادیث کی بنا پر ہے جن میں اس دن کے روزے کی تاکید کی گئی ہے۔[1]
یہ ہیں یوم عاشوراء کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسی سے اہل السنۃ و الجماعۃ کی میانہ روی عیاں ہوتی ہے، ان کے مذہب میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط، اہل سنت کا مذہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات سے وابستگی اور آپ کے احکامات کی تعمیل سے عبارت ہے جس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔
(دوم) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کے مکان کے بارے میں تحقیق:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کی جگہ کے بارے میں اختلاف کا سبب وہ متعدد زیارت گاہیں ہیں جو مسلمانوں کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو فکری اور اعتقادی انحطاط کے زمانوں میں قائم کی گئیں ۔ یہ تمام زیارت گاہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کے وجود کی مدعی ہیں ، پھر چونکہ ان کے سر کی جگہ کے بارے میں ناواقفیت ہے لہٰذا ہر گروہ اپنے ہاں رأس حسین رضی اللہ عنہ کے وجود کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کئی باتیں بناتا ہے۔ اگر ہم حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کی جگہ کے بارے میں تحقیق کرنا چاہیں تو ہمیں اس کے لیے معرکہ کربلا کے اختتام سے ہی اس کی موجودگی کا کھوج لگانا ہو گا۔[2]یہ بات تو ثابت ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے لایا گیا تو اس نے اسے ایک تھال میں رکھا اور پھر اس چھڑی سے اسے ضربیں لگانے لگا جو اس کے ہاتھ میں تھی، یہ منظر دیکھ کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔[3] اس کے بعد رأس حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات و آراء کا واضح اختلاف سامنے آتا ہے۔ لیکن ان روایات کے بعد جو یہ بتاتی ہیں کہ ابن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یزید بن معاویہ کے پاس بھجوا دیا تھا، مجھے معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض روایات بتاتی ہیں کہ جب ان کا سر یزید کے پاس پہنچایا گیا تو وہ ان کے منہ پر چھڑیاں مارنے لگا، جب اس نے یہ حرکت کی تو ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے اس کے اس فعل پر اعتراض کیا، مگر یہ روایت ضعیف ہے۔[4] ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کے ضعف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
|