اما بعد! سبزہ ہو چکا، پھل پک چکے۔ اگر آپ چاہیں تو آئیے کہ ایک تیار لشکر آپ کی بیعت کرنے کو منتظر ہے… و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘[1]
مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجنا اور ان کا قتل:
اہل کوفہ کے متواتر خطوط کو دیکھتے ہوئے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے چچا زاد مسلم بن عقیل کو حالات معلوم کرنے کے لیے کوفہ روانہ کیا تاکہ اہل کوفہ کے خطوط اور ان کے بیعت کے ارادوں کی حقیقت کا پتا چلے۔ مسلم نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں سے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت لینا شروع کر دی۔ بیعت لینے کا یہ عمل ہانی بن عروہ مرادی کے گھر میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا گیا۔ یزید کو جب شام میں اہل کوفہ کی اس بیعت کا علم ہوا تو اس نے والی بصرہ عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ وہ اس معاملہ کو سنبھالے اور اہل کوفہ کو سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرنے سے روکے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ کسی تاریخی روایت سے یہ امر ثابت نہیں کہ یزید نے عبیداللہ کو اس بات کا بھی حکم دیا ہو کہ وہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل کر دے۔[2]
یزید کا حکم ملتے ہی ابن زیاد کوفہ آ دھمکا اور مسلم بن عقیل کی تلاش میں لگ گیا۔ بالآخر اسے معلوم ہو گیا کہ ہانی بن عروہ کا گھر مسلم کا ٹھکانا ہے اور اہل کوفہ نے اسی گھر میں مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے۔ لیکن ابن زیاد کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اہل کوفہ غدر و خیانت کے خمیر میں گندھے ہوئے تھے انہی لوگوں نے بعد میں غداری کی اور مسلم بن عقیل کو قتل کروا دیا اور وہ ایساکیوں نہ کرتے، ان کی رگ رگ میں اہل بیت نبوت اور ان کی پاکیزہ اولاد کی نفرت پیوست تھی۔
مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار کوفیوں نے جب بیعت کر لی تو انہوں نے عابس بن ابی شبیب شاکری کے ہاتھ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یہ خط لکھا:
|