’’تم لوگ جانتے ہو کہ معاویہ( رضی اللہ عنہ ) ہلاک ہو چکا ہے ۔ ملک پر یزید اور اس کے بیٹے نے قبضہ کر لیا ہے۔ جبکہ حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) نے اس کی مخالفت کی ہے اس لیے وہ بھاگ کر مکہ چلے آئے ہیں ۔ تم لوگ ان کے اور ان کے باپ کے شیعیان ہو۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم حسین( رضی اللہ عنہما ) کے مددگار اور ان کے دشمنوں سے لڑنے والے ہو تو نہیں خطوط لکھو اور اگر تمہیں اپنے اوپر بزدلی اور بے ہمتی کا ڈر ہو تو انہیں خطوط لکھ کر دھوکہ مت دو۔‘‘لوگوں نے کہا: ’’نہیں بلکہ ہم ان کے دشمنوں سے قتال کریں گے اور ان کی خاطر جان دے دیں گے۔‘‘
پھر ان لوگوں نے سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد بجلی، حبیب بن مظاہر اور اہل کوفہ کی طرف سے ایک خط لکھا جس میں حمد و ثنا کے بعد لکھا:
’’آپ پر سلام ہو، اما بعد! سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے آپ کے سرکش اور جابر دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی اس وقت ہمارا کوئی امام نہیں ، ہمارے پاس چلے آئیے، شاید آپ کے ذریعے سے اللہ ہمیں حق بات پر اکٹھا کر دے۔ نعمان بن بشیر( رضی اللہ عنہما ) قصر خلافت میں ہیں ۔ ہم جمعہ اور جماعت دونوں میں ان کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوتے (یعنی یہ کوفی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پیچھے جمعہ اور نمازیں ادا نہ کرتے تھے) اور نہ ہم ان کے ساتھ عید پڑھنے نکلتے ہیں ۔ اگر ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے کہ آپ ہمارے پاس آنے والے ہیں تو ہم انہیں کوفہ سے نکال دیں گے اور شام پہنچا کر دم لیں گے ان شاء اللہ۔‘‘
سلیمان اور اہل کوفہ نے عبداللہ بن سمع ہمدانی اور عبداللہ بن دال کے ہاتھ یہ خط روانہ کیا اور انہیں جلد ازجلد یہ خط جناب حسین رضی اللہ عنہما تک پہنچانے کا حکم دیا۔ یہ دونوں برق رفتاری سے چل کر دس رمضان کو حسین رضی اللہ عنہما کے پاس مکہ پہنچے۔ اس خط کے روانہ کرنے کے دو دن بعد ہی قیس بن مسہر صیداوی، عبداللہ بن شداد اور عمارہ بن عبداللہ سلولی کو تقریباً ڈیڑھ سو خطوط دے کر حسین رضی اللہ عنہما کی طرف مکہ روانہ کر دیا اور مزید دو دن بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو حسین رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا۔ ان کوفیوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو یہ خط لکھا:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف ان کے مومن اور مسلم شیعیان کی طرف سے!
اما بعد! تشریف لے آئیے کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں وہ آپ کے سوا کسی اور کے بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتے۔ بس تو پھر جلدی کیجیے! ہاں ہاں جلدی کیجیے… و السلام۔‘‘
اس کے بعد شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے آپ کو خط میں یہ لکھا:
|