نے دفن کر کے اس پر ایک عظیم مشہد تعمیر کیا یہ لوگ مصر کے اس مشہور مشہد کو ’’تاج الحسین‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ یہ مشہد ۵۰۰ ہجری کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ متعدد اہل علم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ بالکل بے اصل بات ہے۔ ان لوگوں نے یہ بات صرف اس باطل دعویٰ کو عام کرنے کے لیے پھیلائی ہے کہ یہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد ہیں ۔ بلاشبہ اپنے اس دعوی میں یہ عبیدی دروغ گو اور خائن ہیں ۔ قاضی باقلانی اور دیار مصر کے دوسرے متعدد علماء نے صراحۃً بیان کیا ہے کہ عبیدیوں کا ’’فاطمی‘‘ ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ خود عوام نے بھی اس باطل دعویٰ کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چنانچہ یہ لوگ ایک فرضی سر لے کر آئے اور اسے اس مذکورہ مسجد میں دفن کر کے مشہور کر دیا کہ یہاں سر حسین دفن ہے اور آج یہ بات زبانِ زد خلائق اور ان کے اعتقاد کا جزو لا ینفک بن چکی ہے۔[1] اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ پر غیرت کھانے والے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اکثر دیار و امصار میں آل بیت رسول کے ساتھ کیے جانے والے اس سانحہ پر کسی ولولہ و انگیخت کا
مظاہرہ نہ کیا اور روافض کو دن رات کے اس تماشے سے روکنے کے لیے تنکا بھی نہ توڑا۔‘‘
جبکہ دوسری طرف روافض نے ان مشاہد کی آڑ میں حرمت حسین رضی اللہ عنہ کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بے دریغ سب و شتم کی راہ بھی ہموار کی۔ افسوس کہ امت مسلمہ کے عوام و خواص اب تک غفلت کی نیند سوئے ہیں اور استراحت کی اس چادر کو اپنے پر سے نہ جانے کب اتاریں گے؟!!
مدینہ منورہ:
مذکورہ بالا تفصیل سے عیاں ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کی جائے تدفین کی تعیین کی بابت کوئی صحیح اور ثابت روایت نہیں ملتی اور جو روایات ملتی ہیں ان کی حیثیت اوہام، خیالات، اندازوں اور تخمینوں سے زیادہ کی نہیں ، جو دراصل حضرات کی ان جھوٹی تمناؤ ں کی غماز ہیں جن کی بنا پر ان خدا ناترسوں نے کتاب و سنت کے صحیح عقیدہ کے خلاف صدیوں سے جنگ برپا کر رکھی ہے۔
ابن سعد نے ذکر کیا ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک قبرستان بقیع (مدینہ منورہ) میں سیّدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کے پاس دفن ہے۔[2]
یہی قول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی ہے۔[3] حافظ ابو یعلی ہمدانی کہتے ہیں کہ اس باب میں اصح ترین
|