Maktaba Wahhabi

274 - 441
عبیدیوں کی یہ حرکات اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ انہیں اپنے اس جرم کا پورا پورا شعور و ادراک تھا کہ وہ اپنے آپ کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کر کے امت مسلمہ کے ساتھ خیانت اور مکر و فریب کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ وگرنہ دراصل یہ تنکے کی آڑ لے کر خود کو چھپانے کی ایک نامعقول اور نالائق کوشش تھی۔ ان حرکات سے عبیدیوں کا پہلا بنیادی مقصد اپنے نسب، اپنے عقائد کے مآخذ اور فلسطین پر صلیبیوں کے قبضہ کی بابت ان کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات سے لوگوں کی توجہ ہٹانا تھا۔ جبکہ دوسرا بنیادی مقصد کتاب و سنت پر قائم بلاد شام کی سکونتی ترکیب میں زبردست تغیر پیدا کر کے وہاں کتاب و سنت سے انحراف و اعراض اور بدعات میں اشتغال کی فضا کو پیدا کرنا تھا۔ ان باطل و فاسد اغراض کے لیے ان عبیدیوں نے پرلے درجے کے بے ضمیر، ایمان فروش اور بے اوقات لوگ منہ مانگے داموں خریدے جنہوں نے اعدائے صحابہ کو لبھا لبھا کر ان علاقوں میں لا بسایا، شبانہ روز کاوشوں سے لوگوں کی زبردست ذہن سازی کر کے ان جعلی مشاہد کی بابت عبیدیوں پر سے افترا کے شبہات کو مٹایا اور عامۃ الناس کے سامنے ان جعلی مشاہد کو خوب مزین و آراستہ کر کے پیش کیا۔ آج بھی ان مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بے پناہ دولت خرچ کی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کو کتاب و سنت کے منہج سے ہٹایا جا سکے۔[1] شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’یہ مزعومہ سر جو عسقلان میں مدفون ہے اور اسے سر حسین رضی اللہ عنہ باور کیا جاتا ہے یہ تو ایک عیسائی راہب کا سر ہے۔‘‘[2] امت مسلمہ کے سربرآوردہ علماء نے مصر میں سر حسین کے دفن ہونے کی روایت کا انکار کیا ہے۔[3] باوجود اس کے کہ قاتلان حسین کا دامن اس کھلی بدنامی کے داغ سے آلودہ ہے لیکن پھر بھی اپنے اسی جرم کو ہتھیار بنا کر امت مسلمہ کے سامنے حقائق کو مسخ کرنے کی ان کی خو آج تک قائم ہے۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ایک جماعت جو خود کو فاطمی (عبیدی) کہلواتی ہے جس کی ۴۰۰ ہجری سے قبل سے لے کر ۵۶۰ ہجری تک مصر پر حکومت رہی، اس بات کی مدعی ہے کہ سر حسین دیار مصر میں پہنچا تھا جس کو انہوں
Flag Counter