آمدم برسر مطلب:
قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ کی بابت خود شیعی شہادتوں کو ان کی زبانی جمع کرنے کے بعد ہم دوبارہ اپنی بحث کی طرف لوٹتے ہیں ۔
یہ ایک بے غبار حقیقت ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر دھوکہ دینے والے ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن‘‘ تھے۔ یہی لوگ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا پہلا سبب تھے اور یہی لوگ آج تک فتنہ کی اس آگ کو پھونکیں مار مار کر مزید بھڑکا رہے ہیں اور امت مسلمہ کے ساتھ مکر و فریب کرنے سے دست کش ہونے سے ہرگز بھی تیار نہیں بلکہ ہر لحظہ اس مشن کے لیے کمربستہ اور تیار و مستعد ہیں ۔ یہ کوفی طبقہ چراغ توحید کی روشنی پھیلاتی لَو کو بجھا کر امت مسلمہ کو مجوسی رسوم و روایات اور عقائد و عبادات کے چنگل میں پھنسا دینا چاہتے ہیں ۔ نام نہاد محبانِ حسین کے یہ خطوط جہاں ایک گہرا مکر تھا، وہیں اسلام اور اکابر اسلام کے ساتھ ایک گہرا مذاق بھی تھا جو بتلاتے ہیں کہ سیّدنا حسین اور ان کی اولاد کے قتل کا خون کن کے سر پر ہے۔
چنانچہ شیعوں کے ایک بے حد معتبر اور ثقہ عالم محسن الامین اپنے قلم سے لکھتا ہے:
’’بیس ہزار عراقیوں نے حسین( رضی اللہ عنہ ) کی بیعت کی تھی، پھر غداری کرتے ہوئے اس بیعت کو توڑ دیا اور الٹا حسین( رضی اللہ عنہ ) کے خلاف خروج کر کے انہیں قتل کر ڈالا حالانکہ اس وقت حسین( رضی اللہ عنہ ) کی بیعت ان کی گردنوں میں تھی۔‘‘[1]
یاد رہے کہ ایسا حالات کی بدلتی صورتِ حال کے ناگزیر نتیجہ کی بنا پر نہ تھا بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی اور طے شدہ سازش کا نتیجہ تھا جو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کشاں کشاں مقتل کی طرف لے گیا تھا۔ چنانچہ کوفیوں سے قتال سے قبل سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ انہیں ارشاد فرماتے ہیں :
’’کیا تم لوگوں نے مجھے یہ نہ لکھ بھیجا تھا کہ پھل پک چکے اور آپ اپنی تیار فوج کی طرف چلے آئیے؟ اے جماعت! تمہارے لیے ہلاکت ہو؟ کیا تم لوگ وہی نہیں ہو جنہوں نے بڑی بے قراری سے ہم سے مدد کی فریادیں کی تھیں پھر اسی تلوار کو ہم پر تیز کر دیا جو ہمارے ہاتھوں میں تھی، اور اس آگ کو ہم پر ہی اور زیادہ بھڑکا دیا جو ہم نے اپنے اور تمہارے دشمنوں کے لیے جلائی تھی اور اب تم اپنے ہی دوستوں کے خلاف اکٹھ کیے کھڑے ہو، تمہارا ناس ہو کہ اب تم دشمنوں کا دست و بازوبنے ہوئے ہو۔ تم لوگ مکھیوں کی طرح اُڑ اُڑ کر ہماری بیعت کی طرف تیزی سے لپکے تھے، اور پروانوں کی طرح ہم پر ٹوٹ کر گرے تھے، پھر تم ہی لوگوں نے حماقت
|