Maktaba Wahhabi

241 - 441
کیسے سکتے ہو کہ تم لوگوں نے اس شخص کو قتل کیا ہے جو خاتم النّبیین کی اولاد، معدنِ رسالت، نوجوانانِ جنت کا سردار، تمہاری جنگ کی جائے پناہ، تمہاری جماعت کا ٹھکانا، تمہاری سلامتی کی جگہ، مصیبت میں سہارا، بات کی حجت اور دلیل تھا، تم لوگوں نے اپنے واسطے بے حد برے عمل کو آگے بھیجا ہے اور روزِ قیامت جو تم اپنے سامنے دیکھو گے وہ بے حد برا ہے۔ پس تم لوگوں کے لیے بے حد ہلاکت و شقاوت، بدبختی و بدنصیبی اور ذلت و رسوائی ہے۔ تمہاری کوششیں نامراد ہوئیں ، تمہارے ہاتھ ہلاک ہوئے، تمہارا سودا خسارے میں رہا، تم لوگ اللہ کے غضب کو لے کر لوٹے اور ذلت و مسکنت کو تم لوگوں پر مسلط کر دیا گیا۔ تمہاری ہلاکت ہو، کیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کے کس گوشے کے ساتھ دھوکہ کیا ہے؟ تم لوگوں نے کس عہد کو توڑا ہے؟ تم لوگوں نے کس حرمت کو پامال کیا ہے؟ کون سا خون بہایا ہے؟ تم لوگ نے ایسا سنگین جرم کیا ہے قریب ہے کہ اس کی سنگینی کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ تم لوگوں نے بے حد بھونڈا اور بھدا کام کیا ہے جس کی برائی نے روئے زمین کا چپہ چپہ اور آسمانوں کا گوشہ گوشہ بھر دیا ہے۔‘‘[1] مشہور شیعہ قلم کار اسد حیدر سیّدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہما کا وہ خطبہ نقل کرتا ہے جو انہوں نے کوفیوں سے ارشاد فرمایا تھا۔ چنانچہ اسد حیدر لکھتا ہے: ’’سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا جب روتے چلاتے اور نوحہ کرتے کوفیوں کے پاس سے گزریں تو انہیں سرزنش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم لوگ پھوٹ پھوٹ کر اور آہیں بھر بھر کے روتے ہو؟ ہاں ! اللہ کی قسم! اب تم لوگ بے حد روؤ گے اور بہت کم ہنسو گے۔ تم لوگوں نے اپنے چہروں پر وہ عیب اور رسوائی ملی ہے جس کو اب تم قیامت تک بھی دھو نہ سکو گے اور بھلا تم رسوائی کا یہ داغ دھو بھی کیسے سکتے ہو کہ تم لوگوں نے خاتم الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو مار ڈالا ہے …‘‘[2] ایک روایت میں ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے کجاوے کی پالکی سے جھانک کر دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اے اہل کوفہ! ذرا ٹھہرو! تمہارے مرد لوگ تو ہمیں قتل کرتے ہیں جبکہ تمہاری عورتیں ہم پر روتی ہیں ، پس تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والا اللہ ہے جو روزِ قیامت فیصلہ کر دے گا۔‘‘[3]
Flag Counter