چل چکا ہے۔‘‘[1]
شیعوں کے شیخ الحاج محمد رضا الحسینی الحائری کہتے ہیں :
’’ہم امامیہ میں یہ بات مشہور ہے، بلکہ اس کی بابت اجماع تک کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نماز میں سیاہ لباس پہننا مکروہ ہے بلکہ مطلق مکروہ ہے البتہ سیاہ عمامہ، موزہ اور چادر پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔ ’’المعتبر‘‘ میں اس کو ہمارے علماء کی طرف منسوب کیا گیا۔ ’’شرائع، قواعد، ارشاد اور رؤوس‘‘ میں بھی اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔شیخ مفید اور سالار نے انہی دونوں پر اقتصار کیا ہے جبکہ ابن حمزہ نے صرف عمامہ پر اقتصار کیا ہے۔ ’’الذکری‘‘ سے منقول ہے کہ سرے سے ان تینوں کا استثناء ہے ہی نہیں ۔ ’’کشف اللثام‘‘ میں مذکور ہے کہ
’’ہمارے اصحاب میں سے ابن سعید کے سوا کسی نے بھی چادر کا استثناء نہیں کیا۔‘‘[2]
شیخ حائری اپنا کلام ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں :
’’ہمارے اصحاب نے ان روایات سے استدلال کر کے سیاہ لباس پہننے کو اور اس میں نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے اور اس بابت اجماع تک کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘[3]
میں کہتا ہوں کہ جب یہ روایات بھی انہی شیعوں کی ہیں اور اجماع بھی انہی کا ہے، تو پھر اس کے باوجود بھی محرم کے پہلے عشرے میں شیعہ حضرات اس قدر اہتمام سے سیاہ لباس کیوں پہنتے ہیں ؟
آخر یہ شیعہ خود اپنی روایات اور اپنے علماء کے منعقدہ اجماع کا احترام کیوں نہیں کرتے؟!!
شیعہ ذاکروں کو ایک نصیحت جو نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کو جائز قرار دیتے ہیں :
گزشتہ میں ہم شیعہ کے فقیہ اکبر محمد بن مکی العاملی ملقب بہ الشہید الاول اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمد الحسینی الشیرازی کے حوالہ سے بالتفصیل یہ بات ذکر کر آئے ہیں کہ اکابر شیعہ علماء جیسے شیخ الطائفہ، ابن حمزہ وغیرہ کے نزدیک سینہ کوبی اور نوحہ خوانی مطلق حرام ہے اور ان کی حرمت پر اجماع بھی منقول ہے۔ چنانچہ ہاشم الہاشمی فضل اللہ کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو میں کہتا ہے کہ
’’ابن حمزہ اور شیخ الطائفہ نوحہ خوانی کے حرام ہونے کی طرف گئے ہیں اور شیخ نے تو ’’المبسوط‘‘ میں اس کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے۔‘‘[4]
|