Maktaba Wahhabi

348 - 441
اور یہ بھی کہا ہے: ’’ہاں ! جملہ اخبار میں نوحہ خوانی کی حرمت وارد ہوئی ہے۔‘‘[1] ان سب نصوص اور حرمت کے اجماع کے باوجود آخر پھر بھی یہ حسینی ماتمی مجالس کیوں منعقد کی جاتی ہیں اور اپنے ہی علماء کے اقوال کو دیوار پر کیوں دے مارا جاتا ہے؟!! اے شیعہ ذاکر! ذرا ہوش سے سن! حضرات اہل بیت نے اپنی اولادوں کی تربیت صبر اور برداشت پر کی تھی اور انہیں یہ تعلیم دی تھی کہ ہر بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی صرف انا للہ پڑھا کریں اور صبر کیا کریں ناکہ واویلا برپا کر دیا کریں جیسا کہ آج کل اور صدیوں سے مجالس اور تعزیتی مجلسوں میں اس نوحہ خوانی اور گریہ و بکا کا دستور جاری ہے۔ موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں : ’’الصادق جعفر بن محمد کو ان کے سب سے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کے وفات پا جانے کی خبر دی گئی۔ اس وقت وہ کھانا کھانا چاہتے تھے۔ یہ خبر سن کر وہ زیر لب مسکرائے، کھانا منگوایا اور اپنے مصاحبوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور باقی دنوں سے کہیں اچھے طریقے سے کھانا کھایا۔ پھر اپنے مصاحبوں کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی اور کھانا بار بار ان کے سامنے رکھتے۔ یہ منظر دیکھ کر انہیں تعجب ہوا کہ موصوف پر تو بیٹے کی وفات کے غم کا کوئی اثر نظر ہی نہیں آ رہا۔ جب امام موصوف تناول فرما چکے تو انہوں نے عرض کیا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد! آج تو ہم نے آپ میں ایک عجیب تر بات دیکھی ہے۔ آپ کو ایسے بے مثال بیٹے کی وفات کا صدمہ پہنچا اور آپ کا یہ حال ہے؟ فرمانے لگے: مجھے کیا ہو گیا ہے جو میں ویسا نہ بنوں جیسا کہ تم مجھے دیکھ رہے ہو کہ سب سچوں کے سچوں کی خبر میں یہ بات آ چکی ہے کہ میں بھی مرنے والا ہوں اور تم بھی مرنے والے ہو۔ لوگوں نے موت کو پہچانا اور اسے آنکھوں کے سامنے رکھا، اسی لیے جب موت ان میں سے کسی کو اچک لے جاتی تھی تو انہیں ذرا تعجب نہ ہوتا تھا، انہوں نے اپنا امر اپنے خالق عزوجل کے سپرد کر رکھا تھا۔‘‘[2] امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی اس روایت کے بعد یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حضرات اہل بیت ان مروجہ حسینی شعائر سے بالکلیہ بری ہیں ۔
Flag Counter