یہ اس بات کی دلیل تھی کہ وہ اس پر راضی بھی ہے اور شاداں و فرحاں بھی۔ مگر کیا وہ اس سے خوش ہو سکتی تھی؟ اگر وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اپنے ساتھ لائے بغیر اسے یہ خبر سناتا تو اس کے حزن و ملال کے لیے یہی کچھ کافی تھا، مگر اس وقت اس کا کیا حال ہوا ہو گا جب وہ اس خبر کے ساتھ ان کا سر مبارک بھی اپنے ساتھ لے کر آ گیا۔ یہ خبر تو ہر بندۂ مومن کو غم ناک کر دینے والی اور اسے تڑپا دینے والی تھی۔ لہٰذا اس نے اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑ دیا اور آئندہ کے لیے ایک گھر میں اس کے ساتھ نہ رہنے کی قسم اٹھا لی۔[1]
حسین، ابنائے حسین اور ذریت حسین رضی اللہ عنہم کی شہادت کے بارے یزید کا موقف:
عبیداللہ بن زیاد نے خط لکھ کر یزید بن معاویہ کو واقعہ کربلا کے بارے میں آگاہ کیا اور فرزندان حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی خواتین کے بارے میں اس سے مشورہ طلب کیا، جب یزید کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو وہ رونے لگا، اس نے کہا: اے اہل عراق! میں قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بغیر بھی تمہاری اطاعت پر راضی تھا، بغاوت اور نافرمانی کی یہی سزا ہوا کرتی ہے، اللہ تعالیٰ پسر مرجانہ پر لعنت کرے، اگر اس میں اور ان لوگوں میں قرابت ہوتی تو وہ ان سے یہ سلوک نہ کرتا۔ اللہ کی قسم اگر میں وہاں ہوتا تو میں حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں درگزر سے کام لیتا، اللہ حسین رضی اللہ عنہما پر رحم فرمائے۔[2]
دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا: و اللہ! اگر میں وہاں ہوتا اور اپنی عمر کے کچھ حصے کے بغیر ان سے قتل کو نہ روک سکتا تو ایسا ضرور کرتا۔[3]
یزید نے یہ اطلاع ملنے پر قیدیوں کو اپنے پاس بھیجنے کا حکم دیا، ذکوان ابو خالد نے انہیں دس ہزار درہم دئیے جن کے ساتھ انہوں نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔[4]اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن زیاد نے آل حسین رضی اللہ عنہ کو تکلیف دہ صورت میں اونٹوں پر سوار نہیں کرایا تھا اور نہ انہیں زنجیروں میں جکڑا ہی تھا، جیسا کہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے۔[5] ہم قبل ازیں پڑھ چکے ہیں کہ ابن زیاد نے واقعہ کربلا کے قیدیوں کو ایک الگ مکان میں ٹھہرایا، انہیں لباس دیا، اخراجات ادا کیے اور ان کی خوراک کا بندوبست کیا۔[6]
عوانہ کی روایت بتاتی ہے کہ مخضر بن ثعلبہ پسران حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کے پاس لے کر آیا،[7] جب وہ یزید
|