گلے لگایا اور رونے لگے پھر فرمایا: ’’میں شہید ہونے والے کو الوداع کہتا ہوں ۔‘‘[1]
یہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے سفر عراق شروع کرنے سے پہلے کا قصہ ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ کو جانے سے بار بار روکا۔ شعبی کہتے ہیں : ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں تھے، انہیں اس بات کی خبر پہنچی کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما عراق کے لیے عازمِ سفر ہو گئے ہیں تو آپ کے پیچھے ہو لیے اور تین رات کی مسافت پر جا کر انہیں پا لیا۔ پوچھا: کہا کا ارادہ ہے؟ فرمایا: عراق کا۔ پھر انہیں وہ بے شمار خطوط دکھلائے جو اہل کوفہ نے لکھے تھے۔ فرمایا: یہ ان کے خطوط اور بیعت نامے ہیں ۔ پھر بھی سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہی فرمایا: ان کے پاس مت جائیے۔ مگر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی بات نہ مانی۔[2]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما :
جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما پر اس ماں کی طرح شفقت و مہربانی تھی جس کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے ڈوب کر ہلاک ہوا ہو اور اس کی یاد میں اس کے آنسو نہ تھمتے ہوں ۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے:
’’جب سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے کوفہ جانے کا عزم مصمم کر لیا تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حاضر ہو کر عرض کیا: اے میرے چچا زاد! میں نے لوگوں سے سنا ہے کہ آپ کوفہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ، آپ ہی بتلائیے کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: بس آج کل میں کوفہ جانے کو ہوں ، ان شاء اللہ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر تو انہوں نے اپنے امیر کو قتل کرنے، دشمن کو نکال باہر کرنے اور شہر پر قبضہ کرنے کے بعد آپ کو بلایا ہے تو ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر ان کا امیر زندہ اور ان پر قائم و قاہر ہے اور اس کے عمال شہروں کا ٹیکس لیتے ہیں تو پھر انہوں نے آپ کو فتنہ کھڑا کرنے اور قتال برپا کرنے کے لیے آنے کی دعوت دی ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی اطمینان نہیں کہ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑکا دیں گے اور ان کے دل آپ سے بدل جائیں گے اور وہی لوگ آپ کے بدترین دشمن بن جائیں گے جنہوں نے آپ کو آنے کی دعوت دی ہے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس بات کا جواب یہ دیا کہ میں رب تعالیٰ سے استخارہ کروں گا اور آئندہ کے حالات پر غور کروں گا۔‘‘[3]
|