Maktaba Wahhabi

198 - 441
پھر جب دوپہر یا صبح کا وقت ہوا تو سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دوبارہ حاضر ہو کر کہا: ’’اے چچا زاد! بڑی کوشش کی مگر مجھے صبر نہیں آ رہا۔ مجھے اس سفر میں آپ کی ہلاکت نظر آ رہی ہے کیونکہ عراقی غدار ہیں ان سے دھوکا مت کھائیے، یہیں ٹھہرے رہیے یہاں تک کہ عراقی اپنے دشمن کو شہر سے نکال دیں تو پھر بے شک ان کے پاس چلے جائیے گا۔ وگرنہ یمن چلے جائیے، وہاں قلعے اور گھاٹیاں ہیں ، وہاں آپ کے والد ماجد کے شیعہ بھی ہیں اور لوگوں سے الگ رہیے، انہیں خط لکھیے اور اپنے داعیوں کو ان میں پھیلا دیجیے۔ مجھے امید ہے کہ اگر آپ ایسا کر لیں گے تو آپ کو اپنی مراد مل جائے گی۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے میرے چچا زاد! اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ میرے حق میں بڑے مہربان اور شفیق ہیں ۔ آپ کی نصیحت مبنی بر دیانت ہے۔ لیکن اب میں سفر کا پختہ ارادہ کر چکا ہوں ۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’اچھا اگر آپ جانا طے کر ہی چکے ہیں تو اولاد اور اہل بیت کو ہمراہ مت لے جائیے۔ اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ آپ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح قتل نہ ہوں جن کی اولاد اور بیویوں کے سامنے آپ قتل ہوئے۔‘‘[1] پھر جب غدار کوفیوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو اس وقت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما کو یہ نصیحت یاد آئی۔ چنانچہ فرمایا: ’’اے لوگو! اگر تم مجھ سے اس بات کو قبول کرتے ہو اور میرے ساتھ انصاف کرتے ہو تو تم لوگ بڑے سعادت مند ہو گے اور تمہارے پاس میرے خلاف کوئی راستہ نہ ہو گا اور اگر تم لوگ میری نصیحت قبول نہیں کرتے تو: ﴿فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَا یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِo﴾ (یونس: ۷۱) ’’سو تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کر پختہ کر لو، پھر تمھارا معاملہ تم پر کسی طرح مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ کرگزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّ وَلِیِّ یَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَo﴾ (الاعراف: ۱۹۶)
Flag Counter