یزید بن معاویہ سے لوگ سخت ناراض ہوئے اور قتل حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے لگے اور متعدد لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے لوگ بھی اس کے خلاف بھڑک اٹھے، پھر وہ ایک دوسرے سنگین جرم کا مرتکب ہوا جو مدینہ منورہ میں واقعہ حرہ کے نام سے معروف ہے۔ اللہ رب کائنات نے اسے زیادہ مہلت نہ دی اور اس کی حکومت چار سال سے بھی کم عرصہ تک قائم رہ سکی۔[1]
ابو رجاء عطاردی نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت میں سے کسی کو گالی نہ دیا کرو اس لیے کہ ایک دفعہ ایک آدمی کہنے لگا: کیا تم اس فاسق حسین بن علی( رضی اللہ عنہما)کی طرف نہیں دیکھتے اللہ اسے برباد کرے! اس کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں میں دو چمکدار چیزیں پھینکیں جس نے اس کی بینائی ختم کر دی۔[2]
ابن کثیر فرماتے ہیں : قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ سے انتقام ایزدی پر مشتمل زیادہ تر احادیث و آثار صحیح ہیں ۔ قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو دنیا میں کسی آفت یا تباہی سے بچے ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر پاگل پن کا شکار ہو گئے تھے۔[3]
(ہشتم) اسلام مخالف قوتیں اور کربلا کا حادثۂ فاجعہ:
اسلام مخالف قوتیں واقعہ کربلا برپا کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور اس کے بعد انہیں مسلمانوں میں نزاع کھڑا کر کے وحدت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کا سنہری موقع مل گیا، کوفہ غلط کار اور شریر لوگوں کا مرکز تھا، اس میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود تھے۔ اس شہر میں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آ بسے تھے جبکہ یہود و نصاریٰ بھی ادھر ادھر سے آ کر اس میں آباد ہو گئے تھے، کئی عرب قبائل اور موالی بھی ادھر چلے آئے تھے۔ کوفہ میں زندیقیت اور جادوگر کا دور دورہ تھا، یہودی ’’تلمود‘‘ کی اشاعت میں لگ گئے اور نصاریٰ تجسید الوہیت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے، انہوں نے خون حسین رضی اللہ عنہ سے فائدہ اٹھایا اور اسے قربانی کا گراں قدر خون قرار دیتے ہوئے اپنے عقیدہ کی رُو سے مسیح علیہ السلام کے خون کے مشابہ قرار دیا اور اس طرح وہ اہل فارس میں سے اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور انہیں اس کے خلاف بھڑکانے کے لیے حسین رضی اللہ عنہ کے مقدس خون کو استعمال کرنے لگے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حمایت کے لیے وہ یہ دلیل پیش کرتے کہ وہ ان کے داماد تھے اور یہ اس لیے کہ انہوں نے علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی ماں گیہان شاہ دختر یزدگرد سے شادی کی تھی۔[4] انہوں نے اس سانحہ فاجعہ کو انسانوں کے عام مصائب سے بڑھاتے ہوئے اسے
|