Maktaba Wahhabi

130 - 441
کی والدہ کا نام مذکور نہیں ملتا۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صرف یہی اولاد نہ تھی۔ آپ کی دیگر ازواج سے اور اولاد بھی تھی جن کا ذکر آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہونے والوں کے ناموں کے ضمن میں آ جائے گا۔ شہر بانو: یہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ام ولد تھیں جن کے بطن سے علی اصغر پیدا ہوئے۔ طف[1] کے دن میدانِ کربلا میں آپ بھی اپنے والد ماجد سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے۔ عمر مبارک اس وقت صرف تئیس برس تھی لیکن آپ بیمار تھے، اسی لیے کسی نے آپ سے تعرض نہ کیا۔[2] جناب علی اصغر کی مذکورہ والدہ یزدگرد بن کسریٰ کی بیٹی ہیں ان کے نام کی بابت متعدد روایات ہیں ۔ چنانچہ ان کا نام شہبن، شاہ بانو اور ’’انساب الطالبیۃ‘‘ کی روایت کے مطابق شہر بانو بھی بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ انہیں شہر بانویہ، جیداء اور غزالہ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[3] شاید یہ نسب آلِ بیت کے ساتھ اُس تعلق کے اسرار کو طشت از بام کرنے میں ہماری مدد کرے جو سنت نبویہ کے آداب سے خالی، بدعات و سیئات میں مستغرق اور آلِ بیت کی تعظیم کے نام پر متکبرانہ شعوبی ثقافت کا شاخسانہ ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس شخص کو اہل بیت کے انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض ہو، اس کے دل میں آلِ بیت نبوی کی تعظیم بھی ہو اور اس کی لغت قرآن و سنت کی لغت بھی ہو؟ ہرگز بھی نہیں ۔ شاید اس نسب میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت و تعظیم کے اظہار میں کتاب و سنت کے معیارات کو ملحوظ رکھے۔ لہٰذا اگر کوئی آل بیت کے ساتھ محبت و عقیدت اور ولا و وفا کے اظہار میں سیّد آل بیت، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کو ملحوظ نہیں رکھتا تو وہ یاد رکھے کہ بزعم خویش جن آلِ بیت کی تعظیم میں وہ لگا ہوا ہے وہ ہمارے پیغمبر کے آلِ بیت نہیں ۔ اس لیے آل بیت سے محبت کرنے والے پر لازم ہے کہ اس کی محبت محبتِ اتباع ہو اور اس محبت کے اظہار میں وہ دشمنانِ اسلام اور اعدائے اہل بیت کے مکائد و فتن کے جال میں پھنسنے اور شرک و بدعت میں جا پڑنے سے ازحد احتیاط کرے۔
Flag Counter