Maktaba Wahhabi

107 - 441
حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کی ذریت کا الوہی حق ہے اور یہ کہ امامت کا انعقاد نص کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ اختیار کی بنیاد پر۔[1] بلکہ شیعہ نے میدان کربلا میں بہنے والے خون حسین رضی اللہ عنہ کو مسیحیت کے نزدیک مزعومہ خون حق کی طرح بڑی قدر و قیمت کا حامل قرار دے دیا۔[2] شہادت حسین کے بعد نہ صرف یہ کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان فکری اور اعتقادی امتیاز ظاہر ہوا بلکہ قتل حسین رضی اللہ عنہ نے خود شیعہ کو بھی متاثر کیا اور وہ کئی فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔[3] لیکن چونکہ تمام شیعہ کے نزدیک شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو خاص اہمیت حاصل ہے لہٰذا وہ یوم عاشوراء کی اہمیت پر بڑا زور دیتے اور اس دن غم کے اظہار کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ انہوں نے اس دن کی فضیلت کے لیے بے شمار احادیث و آثار بھی گھڑ رکھے ہیں ، شیعہ کے نزدیک عاشورۂ محرم کے دن حسین رضی اللہ عنہ پر رونے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ اس دن کے انھی مزعومہ فضائل و مناقب کی وجہ سے ان کے نزدیک یوم عاشوراء منانا ایک دینی فریضہ بن چکا ہے جس میں حکام و محکومین سبھی شریک ہوتے اور اپنے مذہبی جذبات کے اظہار میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں ۔[4] تشیع اور عقائد تشیع کے واضعین نے یوم عاشوراء کی اہمیت پر بڑا زور دیا ہے،[5] تاکہ تشیع اس کے پیروکاروں کے دل میں بھڑکیلے عقیدے کی صورت میں باقی رہے۔ ہر شیعہ ریاست اس امر کا بڑا اہتمام کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ عراق میں دولت بویہیہ اور مصر میں دولت عبیدیہ فاطمیہ۔[6] (دہم ) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی دعا: معرکہ سے قبل آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’میرے اللہ! میرا ہر مصیبت میں تجھ ہی پر بھروسہ ہے، میرا ہر سختی میں تو ہی پشت پناہ ہے، کتنی مصیبتیں آئیں ، دل کمزور پڑ گیا، تدبیر نے جواب دے دیا، دوست نے بے وفائی دکھائی اور دشمن نے خوشیاں منائیں مگر میں نے تجھ ہی سے التجائیں کیں [7] اور تو نے ہی میری دست گیری کی، تو ہی ہر نعمت کا مالک ہے اور تو ہی احسان والا ہے، آج بھی تجھ ہی سے التجا کی جاتی ہے۔‘‘
Flag Counter