Maktaba Wahhabi

171 - 441
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف کوفیوں کے خطوط: اہل کوفہ نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو لگاتار متعدد خطوط لکھے جن میں جلد از جلد کوفہ چلے آنے کی پرزور دعوت اور بیعت کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اہل کوفہ کا اس سے بڑھ کر جرم اور کیا ہو گا کہ پہلے انہوں نے خود خط لکھے اور کوفہ بلوایا پھر بیعت کی، لیکن بعد میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مصیبت عظمیٰ کی صورت میں نکلا۔ پھر ان کوفیوں میں سے بھی سب سے زیادہ مجرمانہ رویہ ان کے امیر عبیداللہ بن زیاد الاحمق کا تھا۔ یہ احمق بعض صحابہ رضی اللہ عنہم پر بے حد بدزبانی اور غرور و تکبر کرتا تھا۔[1]یہی وہ احمق مغرور ہے جس کو اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے مکر و فریب کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ بنایا۔ چنانچہ اس نے پرلے درجے کی بلادت و غباوت اور بے مثل حماقت و سفاہت کا ثبوت دیتے ہوئے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے شہید کر دینے پر اصرار کیا اور سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے امر میں اپنے سے بڑے کسی کی رائے لیے بغیر ہی صلح و مفاہمت کی ہر پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ پھر بالآخر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حادثۂ فاجعہ پیش آ گیا جس کے آثار آج تک امت کی وحدت اور امن پر اثر انداز ہوتے چلے آ رہے ہیں حتیٰ کہ امت کے عقائد بھی اس دل خراش واقعہ سے شدید متاثر ہیں ۔ چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور سنت نبویہ کے دشمنوں نے پہلے آپ کو دھوکہ سے امن کی جگہ سے نکالا۔ پھر آپ کو بے یار و مددگار چھوڑا تاکہ آپ کو شہادت کی طرف لے چلیں ، ان لوگوں نے یہ جگر پاش فعل صرف اور صرف امت میں فتنہ برپا کرنے، اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور اس کے عقیدۂ توحید کو مٹانے کی ناپاک خواہش کے حصول کے لیے کیا تھا۔ اعدائے صحابہ نے اس حادثہ فاجعہ کا بھرپور فائدہ اٹھایا، آج یہ لوگ آل بیت سے جھوٹی محبت کے اظہار کی آڑ میں اور آل بیت پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر امت مسلمہ کے ساتھ مکر کرتے ہیں اور سنت نبویہ کو مسخ کرتے ہیں ۔ بے شک امت مسلمہ کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی
Flag Counter