اور آج تک چکا رہی ہے اور چکاتی رہے گی الا ان یشاء اللّٰہ!!!
یہ امر اس وقت امت مسلمہ کے غموں کو اور زیادہ کر دیتا ہے اور اس کے زخموں پر نمک پاشی کا کام دیتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں عام لوگوں کو اس بات کا ادراک تک نہیں کہ ان رسوم کے پس پردہ روافض کے گھناؤ نے مقاصد کیا ہیں اور صدیوں سے چلی آتی ان رسموں کی بابت انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ یہ سب خرافات خود سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے عقیدہ اور آپ کے نانا سیّد اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سخت خلاف ہیں اور مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ بعض ان قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے حسن ظن بھی رکھتے ہیں ، بے شک ایسے لوگ امت مسلمہ کے لیے ان قاتلوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ۔ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے، انہوں نے جو کچھ بھی کیا نیک نیتی کے ساتھ اور اپنے علم و اجتہاد کے مطابق کیا۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’جس نے دنیا کے لیے ہم سے محبت کی تو دنیا والوں سے نیک و بد ہر قسم کے لوگ محبت کیا ہی کرتے ہیں اور جس نے اللہ کے لیے ہم سے محبت کی تو وہ اور ہم قیامت کے دن یوں ہوں گے۔‘‘ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان انگلی کو ملا کر دکھایا۔[1]
خود سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بیان کردہ قاعدے سے یہ معلوم ہو گیا کہ آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا اور آل بیت رسول اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا ہے اور آل بیت رسول سے اور بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے بغض کی علامت ان باتوں سے بغض رکھنا ہے جن کی خاطر ان مقدس ہستیوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔
جی ہاں ! وہ کتاب و سنت کا منہاج اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت پر چلنا ہے۔
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں :
’’ہم علی بن حسین( رضی اللہ عنہما ) کی خدمت میں بیٹھے تھے، اتنے میں اہل کوفہ کے چند لوگ آئے اور علی بن حسین( رضی اللہ عنہما ) نے ان سے یہ ارشاد فرمایا: ’’اے اہل عراق! ہم سے وہ محبت کرو جو اسلام کا مقتضا ہے، میں نے اپنے والد ماجد کو یہ کہتے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! مجھے میرے مرتبہ سے زیادہ مت بڑھاؤ ، بے شک رب تعالیٰ نے پیغمبر بنانے سے پہلے مجھے (اپنا) بندہ بنایا ہے۔‘‘[2]
|