(۲)… مال کی اندھی محبت۔
(۳)… بدلتے حالات کے ساتھ طرح طرح کا رنگ بدلنا۔[1]
شیخ جواد محدثی لکھتا ہے:
’’کوفہ میں شیعان اہل بیت کی کمی نہ تھی البتہ ان میں جذباتی تقریروں ، شعلہ بار خطبوں اور زبانی جمع خرچ کے دلاسوں کا غلبہ تھا جب کہ اس کے بالمقابل میدان جہاد میں عترتِ رسول کا ساتھ دینا، اہل سنت کے عمل و عقیدہ پر عمل کرنا، آل رسول کا ساتھ دینا اور قربانی کرنا برائے نام بھی نہ تھا۔‘‘[2]
شیخ باقر قرشی لکھتا ہے:
’’کوفیوں نے ان خطوط کو بھلا دیا اور انہیں طاقِ نسیان میں رکھ دیا جو انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو لکھے تھے اور اس بیعت کو فراموش کر دیا جو انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سفیروں کے ہاتھ پر کی تھی۔‘‘[3]
اہل کوفہ اور آل بیت:
جب کوفہ شرور و فتن کا مرکز تھا، وہاں کے لوگ عزت دار گھرانوں کے لوگ نہ تھے اور وہ جملہ اخلاقی برائیوں سے متصف بھی تھے تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ آل بیت کے ساتھ ان کا رویہ صدق و دیانت اور وفا و صفا پر مبنی ہوتا۔ اس لیے مناسب ہے کہ اس موضوع پر بھی قدرے روشنی ضرور ڈالی جائے کہ اہل کوفہ نے آل بیت رسول کے ساتھ کس شرم ناک غدر و خیانت کا ارتکاب کیا تھا۔
اہل بیت کے ساتھ اہل کوفہ کی غداری:
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کے رویوں کا شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’قوموں کو اپنے حکمرانوں کے ظلم کا ڈر رہا کرتا ہے جبکہ مجھے اپنی رعایا کے ظلم کا ڈر ہے۔ میں نے تم لوگوں کو جہاد پر نکلنے کو کہا، مگر تم لوگ نہ نکلے، میں نے تم لوگوں کو سنایا مگر تم لوگوں نے نہ سنا، میں نے خفیہ اور علانیہ تم لوگوں کو دعوت دی مگر تم لوگوں نے قبول نہ کی، تم لوگوں نے میری نصیحت کوٹھکرا دیا، تمہارا ہونا نہ ہونا برابر ہے اور تم لوگوں میں آقا اور غلام کا کوئی فرق نہیں ۔ میں نے تم لوگوں کو حکمت کی باتیں پڑھ کر سنائیں ، مگر تم لوگ ان سے بدک بھاگے، میں نے تم لوگوں کو بڑی
|