Maktaba Wahhabi

162 - 441
بلیغ نصیحتیں کیں مگر تم متفرق ہو گئے۔ میں نے تم لوگوں کو باغیوں کے خلاف جہاد کی دعوت دی، لیکن ابھی میری بات پوری نہیں ہوتی تھی کہ تم لوگ بھاگ کر اپنی مجلسوں میں جا پہنچے ہوتے تھے۔ تم لوگ دھوکہ دیتے تھے۔ میں صبح کو تم لوگوں کو سیدھا کرتا تھا مگر شام پڑے تک تم پھر ٹیڑھے ہو چکے ہوتے تھے، جیسے سانپ پلٹ کر الٹا ہو جاتا ہے۔ اب سمجھانے والا بھی تھک گیا اور سمجھنے والے بھی تنگ ہو گئے۔ اے لوگو! جو خود تو موجود ہیں لیکن ان کی عقلیں غیر موجود ہیں اور ان کی خواہشیں مختلف ہیں ۔ حکمران تم لوگوں کی وجہ سے آزمائش میں ہیں ۔ تمہارا امیر تو رب کا فرمانبردار ہے اور تم اس کے نافرمان ہو۔ اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ معاویہ میرے ساتھ زرگروں والا معاملہ کر لیں جو ایک دوسرے سے درہم و دینار لیتے دیتے ہیں پس وہ مجھ سے تمہارے دس آدمی لے کر مجھے اپنا ایک آدمی بھی اس کے بدلے میں دے دیں تو میں سمجھوں گا کہ یہ سودا مہنگا نہیں ۔ اے اہل کوفہ! تم لوگ کانوں والے بہرے، زبانوں والے گونگے اور آنکھوں والے اندھے ہو۔ دشمنوں سے سامنا کرتے وقت تم لوگ سچے نہیں اور نہ مصیبت کی گھڑیوں میں سچے دوست ہو، تم لوگوں کے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔ تم ان اونٹوں کی طرح ہو جن کے مالک موجود نہیں کہ ایک طرف اکٹھے ہوتے ہیں تو دوسری طرف سے متفرق ہو جاتے ہیں ۔[1] رافضی فلاسفر دکتور احمد راسم نفیس، روافض کے سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو چھوڑنے اور انہیں ستانے کے بارے میں ایک اور موقف بیان کرتے ہیں : ’’نصر بن مزاحم روایت کرتا ہے کہ لیلۃ الہریر کی صبح علی ( رضی اللہ عنہ ) نے معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کے معسکر پر نگاہ ڈالی۔ علی ( رضی اللہ عنہ ) کے قاصد نے جا کر معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) سے یہ کہا کہ علی( رضی اللہ عنہ ) کے پاس چلیے۔ انہوں نے جواب دیا: اس وقت مجھے اپنے موقف سے ہٹنا مناسب نہیں ۔ مجھے امید ہے کہ فتح مجھے ملے گی اس لیے جلدی نہ کیجیے۔ یزید بن ہانی نے لوٹ کر معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کی بات بتلائی کہ وہ ہم پر ضرور حملہ آور ہوں گے۔ اتنے میں زبردست غبار اٹھا، اشتر کی طرف سے شور بلند ہوا اور اہل عراق کی فتح کے واضح آثار نظر آنے لگے اور اہل شام کی شکست و خذلان کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں ۔ لوگوں نے حضرت علی( رضی اللہ عنہ ) سے کہا: اللہ کی قسم! ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ آپ نے قاصد کو قتال کا حکم دیا ہے۔
Flag Counter