حضرت علی ( رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: ’’کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ میں نے اپنے قاصد کو ان کی طرف کوئی خفیہ پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اس نے جو کہا تھا علی الاعلان کہا تھا کیا تم لوگوں نے نہیں سنا تھا؟‘‘
قوم بولی: اشتر کو بلوا بھیجئے وگرنہ ہم آپ کو چھوڑ دیں گے۔
آپ نے فرمایا: اے یزید! تیرا ناس ہو، اسے واپس بلا لو کہ فتنہ نے سر اٹھا لیا ہے۔ یزید نے جا کر اشتر کو سارا قصہ سنایا۔ اشتر بولا: کیا انہوں نے مصاحف اٹھا لیے ہیں ؟ قاصد بولا: ہاں ۔ اشتر بولا: اللہ کی قسم! کیا تم فتح کی طرف نہیں دیکھتے؟ کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے کیا اٹھا لیا ہے اور اللہ ہمارے لیے کیا کر رہا ہے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم اس کو چھوڑ کر لوٹ جائیں ؟
یزید نے اشتر سے کہا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہیں تو اس جگہ فتح ملے اور امیر المومنین جس جگہ ہیں وہاں انہیں دشمنوں کے حوالے کر دیا جائے؟ اشتر بولا: نہیں ، اللہ کی قسم! میں یہ نہیں چاہتا۔ یزید نے کہا: تو پھر سنو! قوم نے امیر المومنین سے یہ کہا ہے اور اس پر حلف لیا ہے کہ یا تو آپ اشتر کو بلوائیے تاکہ وہ آپ کے پاس آ جائے یا پھر ہم آپ کو اپنی تلواروں سے اسی طرح قتل کر دیں گے جس طرح ہم نے عثمان( رضی اللہ عنہ ) کو قتل کیا تھا، [1] یا پھر ہم آپ کو دشمنوں کے حوالے کر دیں گے۔‘‘ اس پر اشتر چلا آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ صف کو صف میں ملا لیجیے۔ اس سے آپ قوم کو شکست دے دیں گے۔‘‘
لوگوں میں شور مچ گیا کہ امیر المومنین نے ثالثی قبول کر لی ہے اور وہ قرآن کے حکم پر راضی ہو گئے ہیں ۔ اشتر بولا: اگر تو امیر المومنین نے ثالثی قبول کر لی ہے اور حکم قرآن پر راضی ہیں تو میں بھی راضی ہوں ۔ لوگ کہنے لگے کہ امیر المومنین راضی ہو گئے اور انہوں نے قبول کر لیا۔ جبکہ امیر المونین خاموش اور سر جھکائے ہوئے تھے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے۔ لوگ ایک دم خاموش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا:
’’میرا معاملہ تم لوگوں کے ساتھ میرے حسب منشا رہا یہاں تک کہ میں نے تم لوگوں کی طرف سے جنگ دیکھی۔ اللہ کی قسم! تم لوگوں سے جنگ میں مجھے زیادہ نقصان ہوا بہ نسبت تمہارے دشمنوں سے جنگ میں کہ تم لوگوں کی طرف سے جنگ زیادہ مغلوب کرنے والی اور زیادہ عبرت ناک ہے۔[2] کیونکہ کل تک میں امیر المومنین تھا مگر آج مامور ہوں ، کل تک روکنے والا
|