Maktaba Wahhabi

164 - 441
میں تھا مگر آج میں خود روکا جانے والا ہوں ۔ تم لوگوں نے بقا کو پسند کیا اور میں تم لوگوں کو تمہاری مرضی کے خلاف پر مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ فرمایا اور بیٹھ گئے۔[1] میں کہتا ہوں کہ بات اسی حد تک نہ رہی تھی بلکہ معاذ اللہ ان کوفیوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر کذب بیانی کی تہمت بھی لگائی تھی۔ چنانچہ شریف رضی امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے: ’’امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے اہل عراق! تم اس حاملہ عورت کی طرح ہو کہ جب اس کے حمل کی مدت پوری ہو گئی اور اس نے بچہ جن دیا تو اس کا دودھ سوکھ گیا اور خاوند مر گیا اور اس کی بیوگی طویل ہو گئی اور اس کا دور کا رشتہ دار اس کا وارث بنا۔ اللہ کی قسم! میں اپنی مرضی سے تم لوگوں کے پاس نہیں آیا بلکہ مجھے تم لوگوں کے پاس ہانک کر لایا گیا ہے۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم لوگ یہ کہتے ہو کہ علی( رضی اللہ عنہ ) جھوٹ بولتا ہے، اللہ تم لوگوں کو غارت کرے! بھلا میں نے کس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے …‘‘[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے شیعیان سے فرمایا: ’’اللہ تمہیں غارت کرے! تم لوگوں نے میرا دل اور میرا سینہ غم و غصہ سے بھر دیا ہے، تم لوگوں نے مجھے تہمتوں کے گھونٹ پلائے اور نافرمانی اور بے وفائی کے ذریعے سے میری رائے کو برباد کیا۔‘‘[3] یہ ہے اُس وقت کے شیعیان کا حال اپنے پہلے امام کے ساتھ ، اور حیرت کی بات ہے کہ پھر بھی یہ لوگ اس موضوع روایت کو دہراتے رہتے ہیں : ’’اے علی! تم اور تمہارے شیعہ اس حال میں آئیں گے کہ تم ان سے راضی اور وہ تم سے راضی جبکہ تیرے دشمن غضب کی اور اس حالت میں آئیں گے کہ ذلت سے ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے۔‘‘ کیا یہی وہ اہل تشیع ہیں جو اس حال میں آئیں گے کہ خود بھی راضی اور جناب علی رضی اللہ عنہ بھی ان سے راضی؟ اس کے بعد ان شیعوں کے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ کا دَور آتا ہے۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ ان اہل تشیع کو جہاد کے لیے تیار کرتے ہوئے ایک خطبہ دیتے ہیں ۔ دکتور احمد نفیس اس تقریر کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’حسن ( رضی اللہ عنہ ) اپنے شیعہ کو جہاد کے لیے تیار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’اللہ نے اپنے بندوں پر جہاد کو فرض کیا اور اسے ’’ناگوار‘‘ امر کا نام دیا۔ پھر مومن مجاہدین سے یہ ارشاد فرمایا: ﴿اِصْبِرُوْا
Flag Counter