’’مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ بھیجا اور فرمایا: ’’کسی مورت کو نہ چھوڑنا مگر اس کو مٹا دینا، کسی قبر کو نہ چھوڑنا مگر اس کو برابر کر دینا اور کسی کتے کو نہ چھوڑنا مگر اس کو قتل کر دینا۔‘‘[1]
دوسری روایت:
یہ دونوں شیعی علماء ابو عبداللہ ہی سے نقل کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں :
’’امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تاکہ میں قبروں کو ڈھا دوں اور مورتیوں کو توڑ دوں ۔‘‘[2]
لیکن ذرا ٹھہریے! بات صرف اسی حد تک ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک اور شیعی عالم کاشف الغطاء حسن سعید نامی ایک صاحب کی پیروی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی مسلم کی ایک روایت لاتے ہیں پھر ایک اور روایت ذکر کرتے ہیں جو مسلم اور ترمذی دونوں میں مذکور ہے جن میں قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر تعمیر کرنے کی ممانعت مذکور ہے۔[3] اس کے بعد طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس بات کو امت کی طرف منسوب کرتا ہے کہ امت کا قبروں پر عمارت بنوانے اور ان پر کتبوں کی تحریریں لکھوانے کے جواز پر اجماع ہے۔[4]
بلاشبہ یہ نرا جھوٹ ہے۔ اگر آپ اس جھوٹ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔ ان شاء اللہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور شیعوں کے لگائے اس الزام کی قلعی کھل جائے گی کہ اہل سنت والجماعت کا مساجد پر تعمیر کے جواز پر اجماع ہے۔
پھر موصوف اپنے ائمہ کی طرف بھی اس جواز کی نسبت بیان کرتے ہیں ، یہ بھی جھوٹ ہے۔ جس کی دلیل ہماری گزشتہ مذکورہ دو روایات ہیں جو ان ہی کے ائمہ سے مروی ہیں جو قبروں پر تعمیر کی حرمت کو صراحت کے ساتھ ذکر کرتی ہیں لیکن موصوف آل کاشف کتمان پر کتمان کیے چلے جاتے ہیں ۔ مذکورہ مسئلہ کسی لطیفہ سے کم نہیں ۔ ان کے شیخ یوسف بحرانی کہتے ہیں :
’’جملہ اصحاب نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ قبروں کو پختہ بنانا، ان پر تعمیر کرنا مکروہ ہے۔ بلکہ ’’التذکرۃ‘‘ کے ظاہر سے اس کراہت پر اجماع محسوس ہوتا ہے۔ شیخ نے ’’النہایۃ‘‘ میں
|