دکھانے کی بدعت کا بھی آغاز کیا گیا۔[1]
پانچواں دَور:
موصوف شیرازی لکھتا ہے:
’’یہ متاخرین فقہاء کا دور ہے۔ جن میں سرفہرست شیخ مرتضی انصاری اور آیت اللہ دربندی کے نام آتے ہیں ۔ اس دور میں سینہ کوبی اور زنجیر زنی کے جلوسوں کو کثرت کے ساتھ نکالا جاتا تھا۔‘‘[2]
اس کے بعد شیرازی بھی تبریزی، اصفہانی اور فانی کی طرح اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ
’’اگر ان لوگوں کو ائمہ کے ادوار میں آزادی میسر آئی ہوتی تو وہ ان شعائر کو آج سے کہیں زیادہ قائم کرنے والے ہوتے، لیکن انہیں ان اَدوار میں آزادی نصیب نہ ہو سکی، گو کہ اہل تشیع اس معاملہ میں ہر دَور میں بے حد حساس رہے ہیں ۔‘‘[3]
شیرازی کا یہ قول کہ ’’یہ لوگ ان شعائر کو قائم کرتے جو انہوں نے آج قائم کر رکھے ہیں ‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ رسومات ان اَدوار میں ناپید تھیں ۔
معلوم ہوا کہ ان شعائر و رسومات کا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور نہ یہ ائمہ کے اَدوار میں تھیں ، تب پھر یہ ان بدعات میں سے ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ڈرایا ہے:
’’نئی نئی باتوں سے بچو کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں جائے گی۔‘‘
موصوف شیعی مصنف اور اسی طرح ہر شیعی اہل علم کو اس بات کا ادراک حاصل کرنا چاہیے، وہ ان موجودہ رسومات پر نگاہِ غور ڈالے اور ان ماتموں پر پابندی کا ازسر نو جائزہ لے۔
مذکورہ مضمون کو ختم کرنے سے قبل ہم محمد حسین فضل اللہ کے دئیے گئے ایک جواب کو قارئین کی نذرِ نظر کرتے ہیں ۔ چنانچہ جب موصوف سے پوچھا گیا کہ حسینی ماتم کی بنیاد کس نے رکھی تھی تو موصوف اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’حسینی ماتم کی بنیاد ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم نے رکھی تھی۔ یہ حضرات ان مجالس کا اپنے گھروں میں انعقاد کرتے تھے اور ان لوگوں کو بلواتے جو رقت آمیز طریقہ سے حسین علیہ السلام پر آنے والی مصیبت
|