Maktaba Wahhabi

277 - 441
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر لعنت کرنے اور اس سنت سے محبت رکھ کر اس پر سچائی کے ساتھ عمل کرنے والوں پر لعنت کرنے سے تعبیر ہے۔ ان کوفیوں نے میدانِ کربلا میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی لاش پر رقص کیا اور اسی نہج پر چلتے ہوئے ان کے جد اعلیٰ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بدلا اور یہی ان رافضیوں کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ امت کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر مال بٹورنے کے لیے یہ کسی شروع و اخلاق کی پابندی نہیں کرتے۔ غرض سر حسین رضی اللہ عنہ کی جائے تدفین کی تعیین کی بابت اقرب ترین روایت قبرستان بقیع کی ہے اکثر ثقہ علماء نے اسی قول کو لیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ روایت جزم و وثوق اور یقین و قطعیت کا فائدہ نہیں دیتی اور شاید اسی میں رب تعالیٰ کی حکمت اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تکریم تھی کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کی لاش اور سر مبارک کا مدفن غیر متعین ،غیر قطعی اور مجہول ہی رہے تاکہ لوگ ان مقامات کو رب کے سوا عبادت کا مرکز نہ بنا لیں اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر تسویلات اور محرمات و اعراض کے ساتھ نہ جڑا رہے۔ چنانچہ کربلا کے میدان میں روافض کے مزعومہ مشاہد پر مردوں عورتوں کے بے محابا اختلاط ، زینت کے اظہار اور تبرج کے ارتکاب کے جو مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ان قبروں پر اباحیت، معاصی کے ارتکاب اور سنت کے اِمحاء کے پورے پورے اسباب و وسائل باضابطہ طور پر میسر کیے جاتے ہیں اور یہ سارا کھیل حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر کھیلا جاتا ہے اور یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہو گا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر بنائے گئے مشاہد و مزارات پر جن گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی مثال کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کیا محبان حسین رضی اللہ عنہ کے یہی اخلاق ہوتے ہیں ؟ ان مشاہد و مزارات کو جابجا بنانے والے جانتے ہیں کہ وہ صرف اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں اور یہ ان کی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے شہادت پا جانے کے بعد ان پر اسی طرح جرأت و جسارت ہے جس طرح انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان کے خون سے ہاتھ رنگ کر ان پر جرأت و جسارت کی تھی۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات اور کیا ہو گی کہ انہوں نے ایسی ایسی جگہوں پر مشاہد و مزارات بنا ڈالے ہیں جہاں جناب حسین رضی اللہ عنہ نے کبھی قدم بھی نہ رکھا تھا۔ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی بابت یزید کا موقف: ایسی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی جو یہ بتلائے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہما میں یزید کا حکم یا مرضی شامل تھی۔ بلکہ یزید نے جناب امام زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ سے جو کہا وہ اس کے موقف کو واضح کرتا ہے۔ چنانچہ یزید نے علی بن حسین رحمہ اللہ اور آل حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بے پناہ حسن سلوک کیا اور یہ کہا: ’’اللہ کی قسم! اگر میں حسین کا ساتھی ہوتا اور زندگی کا ایک حصہ خرچ کر کے بھی ان کا دفاع کر پاتا
Flag Counter