قول یہی ہے کہ سر مبارک قبرستان بقیع میں سیّدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک کے پاس مدفون ہے۔[1] زبیر بن بکار اور محمد بن حسن مخزومی کا بھی یہی قول ہے۔[2]
ابن ابو المعالی اسعد بن عمار نے اپنی کتاب ’’الفاصل بین الصدق و المین فی مقر رأس الحسین‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے، جن میں ابن ابی الدنیا، ابو الموید الخوارزمی اور ابوالفرج بن الجوزی جیسے بڑے بڑے علماء کے نام آتے ہیں ، اس بات کو تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک قبرستان بقیع میں مدفون ہے۔[3] اسی قول کو علامہ قرطبی نے بھی لیا ہے۔[4]
زرقانی کہتے ہیں : ابن دحیہ کا قول ہے کہ اس قول کے سوا دوسرا کوئی قول صحیح نہیں ۔[5]
ان اقوال کی روشنی میں یہ بات مؤکد ہو جاتی ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا میں شہید کیا گیا اور بعد میں امت کو اعتقادی تشتت و انتشار کا شکار کرنے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سر حسین رضی اللہ عنہ کے مدفن کے نام پر جا بجا مشاہد و مزارات تعمیر کر دیے گئے۔
بہرحال ان تفصیلات کی روشنی میں خلاصہ یہ سامنے آتا ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ اور خود جسد حسین رضی اللہ عنہ کی تدفین کی بابت میسر اور منقول روایات کا زیادہ تر حصہ جعلی ہے اور ان روایات کے پیچھے لگنا سراب کے پیچھے دوڑنے کے مترادف ہے۔ ان روایات کو تراشنے کا مقصد جہاں امت مسلمہ میں فکری و اعتقادی فتنہ انگیزی پیدا کرنا ہے، وہیں آل بیت رسول سے جھوٹی محبت و عقیدت کے اظہار کی آڑ میں لوگوں کے احساسات و جذبات کو مہمیز کر کے دنیا بھر سے حرام کا مال بٹورنا اور حسین مظلوم رضی اللہ عنہا کی مدد کے نام پر امت مسلمہ کی آبرو سے کھیلنا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ذرا پاس و لحاظ نہیں کرتے بالخصوص آل بیت رسول کی مقدس و مطہر خواتین کے بارے میں ایسی ایسی رسوائے زمانہ باتوں کی تشہیر کرتے ہیں جن کو سن کر ایک غیرت مند مسلمان کا سر مارے شرم کے جھک جاتا ہے۔ یہ لوگ صرف عامۃ الناس کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں جن میں سرے سے کوئی فکری و عملی استعداد ہی نہیں ہوتی۔
ان لوگوں نے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے الم ناک واقعہ کو اپنے مقاصد کے حصول کا قوی ذریعہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ لوگ ان کی زبانوں سے اس المیہ کی حزن و الم پر مبنی فرضی تفصیلات سن کر بے خود ہو جاتے ہیں اور نصرتِ حسین کے نام پر اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں جو صرف اور صرف جد حسین رضی اللہ عنہ حضرت
|