Maktaba Wahhabi

195 - 441
تلواروں کے ڈر سے گھروں سے بھاگ جاتے دیکھا ہے۔ غرض ابن حر نے حسین( رضی اللہ عنہ ) کی مدد سے انکار کر دیا جس پر حسین( رضی اللہ عنہ ) اپنے اصحاب اور اہل بیت کو لے کر آگے چل دئیے۔‘‘[1] سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خروج کے بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف: حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتنوں سے سب سے زیادہ دُور رہنے والے اور امن و سلامتی اور عافیت کے سب سے زیادہ حریص تھے۔ لیکن جب یہ لوگ کسی مخالف شرع بات کو دیکھتے تھے تو ہرگز بھی خاموش نہ رہتے تھے۔ جب کوفہ کے غداروں اور مکاروں نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بیعت کرنے کے خطوط لکھے اور انہیں حضرات خلفائے راشدین کے طرز پر احیائے سنت اور عمل جہاد کی دعوت دی تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی دعوت کو قبول کر لینا لازم سمجھا۔ ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اب ان کے پاس جہاد فی سبیل اللہ سے بیٹھ رہنے کا کوئی عذر نہیں ۔ بالخصوص سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جی میں دینی غیرت و حمیت بے حد شدید تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جناب حسن رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جناب حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے میرے بھائی! اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ آپ کے دل کی کچھ شدت مجھے مل جائے۔ تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب میں یہ فرمایا: ’’اور اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کی زبان کی تھوڑی سی نرمی مجھے مل جاتی۔‘‘[2] سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اسی دینی غیرت اور اس کی شدت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوفیوں نے آپ کو ظلم کی داستانیں لکھ بھیجیں اور زور دیا کہ ان گمبھیر حالات میں ہمیں آپ کی نصرت و حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کمزور کی نصرت اور اقامت حق کی نیت سے کوفہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ لیکن آپ کے دل میں یہ بات نہ آئی کہ یہی لوگ شہید مظلوم امیر المومنین سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قاتل ہیں ۔ ان لوگوں نے مظلومیت کا جھوٹا ڈھونگ رچایا اور سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نیکو کار اور مخلص والیوں کی طرف ظلم و عدوان کو منسوب کیا۔ حالانکہ یہ لوگ پرلے درجے کے ظالم و فاجر اور فتنہ پرور تھے جنہوں نے امام شہید سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں امت کو ظلم و بے انصافی کے چرچوں میں مشغول رکھا اور رقعہ اسلام کو افواہوں سے بھر دیا تھا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان دشمنانِ صحابہ سے بخوبی واقف تھے جنہوں نے امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ پھر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی ان کی قاتلانہ ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہ رہ سکے اورانہیں ایک بدبخت کے ہاتھوں کدال کا گہرا وار سہنا پڑا۔ کوفیوں کے اسی سابقہ کردار کو دیکھتے ہوئے
Flag Counter