سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے بارے میں آل بیت اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے:
حضرات صحابہ کرام، آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور امت کے سربرآوردہ حضرات کی آراء اور لکھے گئے خطوط کی روشنی میں بلا تکلف کہا جا سکتا ہے کہ ان سب حضرات کا سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے اس اجتہاد سے عدم موافقت پر اجماع تھا کہ وہ کوفہ کی طرف خروج کریں اور ان حضرات کا یہ اجماع علم و درایت اور فقاہت پر مبنی تھا۔ اس اجماع کی مندرجہ ذیل وجوہات تھیں :
٭… اس وقت کی امت کی حالت، جس میں خلافت پر اجماع اور استقرار تھا۔
٭… اس اجتہاد کے دُور رَس نتائج و خطرات
٭… آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کے دعوے داروں کی بخوبی معرفت، جنہیں اپنی مصلحت و مفاد کے سوا اور کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔ یہ لوگ وفا و ولا، محبت و عقیدت اور خلوص و دیانت جیسی صفات سے یکسر عاری تھے۔ دینی غیرت و حمیت ان لوگوں کو چھو کر بھی نہ گزری تھی۔
دوسرے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین کے ان نام نہاد محبین کا ماضی مثل آفتاب نیم روز ہر ایک پر عیاں تھا۔ انہیں نہ تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض تھی اور نہ امت کے اتفاق و اتحاد کی مطلق پروا ہی تھی۔ ان لوگوں کی ساری کاوشیں اُمت مسلمہ کے اجماعی عقیدہ کے متوازی ایک خود ساختہ و خود تراشیدہ عقیدہ کی ترویج اور اس کی اشاعت کے لیے تھیں ۔
سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا اجتہاد اور اس کی شرعی حیثیت:
اس مقام پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جب معاملہ اسی نہج پر تھا تو پھر سبط رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنہا سیّدنا حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے امت مسلمہ کے مسلمہ اکابر اور جلیل القدر علماء و زعماء کی آراء سے اتفاق کیوں نہ کیا؟ اور خود اپنے اس برادرِ اکبر سیّدنا حسن بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے اجتہاد سے اختلاف کیوں کیا؟ جن کی مصلحت اندیشی اور مصالحت کوشی کی تعریف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی کہ وہ امت میں اصلاح ذات البین کا اور اس کی وحدت کا باعث بن کر مصلحین کے اجر و ثواب سے سرفراز ہوں گے۔
پھر اگرچہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما دونوں کے اجتہادات کے جوازات میں عظیم فرق بھی تھا، پھر بھی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ شرعی بیعت تھی۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت اس اکثر عوام نے کی تھی جنہوں نے خود اس سے قبل امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی اور تقریباً نصف یا اس سے زیادہ امت پوری قوت و استحکام کے ساتھ جناب حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دست بردار ہو کر امت مسلمہ کی وحدت کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی اور اپنی بیعت کرنے والوں کو
|