Maktaba Wahhabi

204 - 441
جماعت کولازم پکڑنے کا حکم دیا اور آپ کو اس بات کی خبر دی کہ آپ اپنی جائے قتل کی طرف لے جائے جا رہے ہیں ۔ حضرت عمرہ نے قسم کھا کر کہا کہ مجھے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ ’’حسین رضی اللہ عنہما کو سرزمین بابل میں قتل کیا جائے گا۔‘‘ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جب یہ خط پڑھا تو فرمایا: تب تو میرا وہاں جانا ناگزیر ہے اور سفر کو جاری رکھا۔[1] ٭ … حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ : حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بھی خط لکھ کر آپ کو اہل کوفہ سے ڈرایا اور آپ کو اللہ کا واسطہ دیا کہ آپ ان کی طرف نہ جائیں ۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب میں یہ خط لکھا کہ: ’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے، جس میں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک بات کا حکم دیا ہے جو میں کرنے جا رہا ہوں اور جب تک میں وہ کام کر نہ لوں میں کسی کو اس کے بارے میں خبر نہ دوں گا۔‘‘[2] ٭ … حضرت عمرو بن سعید بن العاص رحمہ اللہ نے آپ کو خط میں یہ لکھا: ’’میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو آپ کے سیدھے امر کی ہدایت دے اور آپ کو اس بات سے پھیر دے جو آپ کو ہلاک کر ڈالے گی۔ مجھے اس بات کی خبر ملی ہے کہ آپ عراق جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ میں آپ کو شقاق و افتراق میں پڑنے سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔ اگر آپ کو کسی قسم کا ڈر ہے تو میرے پاس چلے آئیے۔ میں آپ کو امان بھی دوں گا اور آپ کے ساتھ نیکی و صلہ رحمی بھی کروں گا۔‘‘ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعید کو یہ جواب لکھ بھیجا: ’’ اگر تم نے خط لکھ کر میرے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تمہیں اس کی دنیا و آخرت میں جزا دے اور جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ، وہ شقاق و افتراق کرنے والا نہیں ہوتا اور سب سے بہتر امان اللہ کی امان ہے اور جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتا۔ ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دنیا میں اپنا ڈر نصیب کرے کہ یہ ڈر ہمیں آخرت میں اللہ کے ہاں امان دے گا۔‘‘[3]
Flag Counter