شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد
مظلومیت کا عقیدہ
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دینے کے بعد یہ کوفی ایک ایسا عقیدہ اور نظام بنانے میں کامیاب ہو گئے جس نے ایک ایسی حکومت کو قائم کیا جس کی بنیادیں کتاب و سنت سے عداوت، اُمت مسلمہ سے محاذ آرائی اور جیسے بھی بن پڑے اُمت مسلمہ کے دشمنوں کے ساتھ اتفاق و اتحاد اور قرب و ولاء پر رکھی گئی تھیں ۔ پھر اس گھناؤ نے منصوبے نے مساجد، علماء، حفاظ، قراء، فاتحین، محدثین، مفسرین، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات تابعین رحمہم اللہ کے خلاف خفیہ اور علانیہ ہر قسم کی جنگ کا اعلان کر دیا۔
یہ سب کچھ نفرت و کینہ اور بغض و حسد سے معمور ان نعروں کی چھاؤ ں میں کیا جانے لگا جن کو ’’مظلومیت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس عقیدہ کی بنیاد اس مشہور مثل پر رکھی گئی ہے: …مارا بھی خود ہی، پھر خود ہی رونے لگا اور جا کر شکایت بھی لگا ڈالی…
اگر بات مظلومیت کی ہی ہے تو پھر سب سے مظلوم خود اُمت مسلمہ کے جلیل القدر صحابہ اور ائمہ اعلام ہیں جن کو نہایت بے دردی اور دھوکے سے شہید کر دیا گیا تھا۔ جو سیّدنا فاروق اعظم، سیّدنا عثمان بن عفان، سیّدنا علی بن ابی طالب اور سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ہیں ۔
پھر جنگ جمل اور صفین کے مظلوم مقتولوں اور شہیدوں کے نام آتے ہیں ۔ ان کے بعد جناب حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملے، پھر جناب معاویہ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملے اور سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ والی مصر کے نائب حضرت خارجہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا نام آتا ہے۔ ان سب کے بعد جناب حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ غداری کرنے اور بدترین وسائل کو اختیار کر کے انہیں ان کے اہل بیت سمیت شہید کر دئیے جانے کا نام آتا ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو غدر و قتل کے ان واقعات میں سے اکثر مساجد میں اور نماز فجر کے اوقات میں پیش آئے جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ان رافضیوں سبائیوں کے نزدیک مساجد، نمازیں اور شعائر اسلامیہ کی کوئی وقعت نہیں ۔ ان لوگوں نے امت کے دلوں میں رِستے اس زخم کو کبھی بند نہ ہونے دیا۔ چنانچہ انہوں نے یزید بن علی کے ساتھ بھی غداری کر کے انہیں قتل کر ڈالا اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات
|