(ششم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع دینا:
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ’’جبریل امین علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور حسین رضی اللہ عنہ میرے ساتھ کہ حسین رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے انہیں چھوڑا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ان سے قریب ہو گئے، اس پر جبریل علیہ السلام کہنے لگے: یا محمد! کیا آپ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’ہاں ۔‘‘ یہ سن کر جبریل علیہ السلام کہنے لگے: آپ کی امت انہیں قتل کر دے گی، اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو زمین کی وہ مٹی دکھا دوں جہاں انہیں قتل کیا جائے گا، چنانچہ انہوں نے آپ کو وہ جگہ دکھا دی، معلوم ہوا کہ اس زمین کا نام کربلا ہے۔‘‘[1]
پھرعرصہ دراز بیت جانے کے بعد یہ واقعہ اسی طرح پیش آیا۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے پیغمبر برحق اور سچے رسول ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کی خبر وحی کے طریق سے دی تھی۔[2]
(ہفتم) قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کا انتقام:
اللہ تعالیٰ نے حسین شہید رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے زبردست انتقام لیا جن میں عبیداللہ بن زیادسرفہرست ہے ۔ جو شخص بھی اس قتل ناحق میں شامل تھا وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچ سکا۔ عبیداللہ بن زیاد کو ابراہیم بن الاشتر نے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر اسے مختار بن ابی عبیدثقفی کے پاس بھیج دیا۔ ابن عبدالبر فرماتے ہیں : حسین رضی اللہ عنہ کو ۶۱ ہجری میں عاشورۂ محرم کے دن قتل کیا گیا تھا، پھر اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ عبیداللہ بن زیاد کو بھی ۶۷ ہجری کو عاشورۂ محرم کے دن ہی موت کے گھاٹ اتارا گیا، اسے ابراہیم بن الاشتر نے ایک جنگ کے دوران میں قتل کر ڈالا اور اس کا سر مختار ثقفی کے پاس بھجوا دیا، مختار نے اسے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس اور انہوں نے اسے علی بن حسین رحمہ اللہ کے پاس بھجوا دیا۔[3]
عمار بن عمیر کہتے ہیں : ’’عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے تو ہم بھی وہاں جا نکلے۔ اچانک لوگ کہنے لگے: وہ آ گیا وہ آ گیا، پھر اچانک ایک سانپ نمودار ہوا یہاں تک کہ ابن زیاد کے نتھنے میں داخل ہو گیا۔ اس میں کچھ دیر رکا رہا اور پھر باہر نکل کر آنکھوں سے غائب ہو گیا، تھوڑی دیر کے بعد لوگ پھر کہنے لگے: وہ آ گیا، وہ آ گیا۔ پھر سانپ نمودار ہوا اور اس نے دو یا تین بار یہی کام کیا۔‘‘[4]
|