اعتماد کرتے ہیں ۔ وہ خوابوں کی بنیاد پر عمل کرتے اور انہیں ترک کرتے ہیں ، چنانچہ وہ کہا کرتے ہیں : ہم نے فلاں نیک آدمی کو خواب میں دیکھا تو اس نے ہم سے کہا: یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ تصوف سے راہ و رسم رکھنے والے زیادہ تر لوگ اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو یوں بھی کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ نے مجھ سے یہ فرمایا اور اس کام کے کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ اس خواب کی بنیاد پر بعض کام کرتے اور بعض کو ترک کر دیتے ہیں ، جبکہ شریعت کی وضع کردہ حدود کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ غلط ہے، اس لیے کہ انبیائے کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے خوابوں کی بنیاد پر شرعاً کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ انہیں اپنے پاس موجود شرعی احکام پر پیش کیا جائے، اگر تو احکام شرعیہ سے ان کی تائید ہو جائے تو ان پر عمل کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر انہیں ترک کرنا اور ان سے اعراض کرنا واجب ہو گا۔ خوابوں کا فائدہ محض بشارت یا تنبیہ ہے، ان سے ان کے استفادہ کرنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔[1] اس بنا پر انسان خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ کسی تقدس کا حامل نہیں ہوتا بلکہ اسے شریعت پر پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ شریعت سے ہم آہنگ ہو تو حکم شریعت کے مطابق ہو گا اس لیے کہ شرعی احکامات خوابوں پر موقوف نہیں ہیں ، اور اگر وہ شریعت کے مخالف ہو تو اسے ردّ کر دیا جائے گا خواہ خواب دیکھنے والا کوئی بھی ہو اور اس نے جیسا بھی خواب دیکھا ہو، ایسے خوابوں پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ وہ شیطانی وسوسہ ہے، جھوٹا اور پراگندہ خیال ہے۔[2]
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر حکم شریعت کے مطابق ہی ہوتا ہے[3] تو پھر شریعت سے ہم آہنگ خوابوں کا کیا فائدہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا فائدہ تنبیہ کرنا اور خوشخبری دینا ہے۔ جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’نبوت سے مبشرات کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘‘ لوگوں نے سوال کیا: مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نیک خواب۔‘‘[4] اس لیے کہ نیک آدمی کبھی کبھی خواب میں کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو اسے خوش کر دیتی ہے یا پریشان کر دیتی ہے، جس سے وہ فعل مطلوب کو ادا کرتا اور امر محظور کو ترک کر دیتا ہے۔[5]
|