Maktaba Wahhabi

269 - 441
بہت زیادہ ہیں ۔ اس بارے میں دو رائے نہیں کہ یہ جملہ روایات خود تراشیدہ ہیں تاکہ جا بجا شرکیہ رسومات کے اڈے کھولے جا سکیں اور کھول دئیے گئے۔ ان مشاہد و مزارات کو اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تاکہ امت مسلمہ میں شبہات کو ہوا دی جا سکے اور فتنہ، کینہ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نفرت و کراہت کی ثقافت کو پالا پوسا جا سکے اور یہ سب کچھ اس زعم باطل کی آڑ میں کیا جائے کہ ہم تو آل بیت کے تقرب کے لیے ان مشاہد و مزارات کی زیارتوں کے لیے جا رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان زیارتوں کا آل بیت رضی اللہ عنہم سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔ کیونکہ ان زیارتوں کے اکثر افعال و اعمال سنت نبویہ کے ان آداب سے خالی ہیں جن کو حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم نے تا دم واپسیں مضبوطی سے تھامے رکھا تھا۔ مدفن سر حسین رضی اللہ عنہ کی بابت اختلاف کا سبب: سر حسین رضی اللہ عنہ کی جائے تدفین میں پیدا ہونے والے اختلاف کا سبب ان مشاہد و مزارات کی کثرت ہے جنہیں مسلمانوں کے بلاد و امصار میں جا بجا قائم کر دیا گیا ہے ۔ افسوس کہ یہ جملہ مشاہد ان ادوار میں قائم کیے گئے جب اہل سنت نبویہ کمزور ہو چکے تھے اور ان میں صحیح عقیدہ کا اہتمام اور عقائد کے دشمنوں سے برسر پیکار ہونے کا جذبہ و ولولہ کمزور ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہونے کو تھا۔ سر حسین رضی اللہ عنہ کے مدفن کی بابت چند روایات کو ذیل میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے: ایک روایت یہ ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کربلا میں دفن ہے۔[1] جبکہ ایک ثابت روایت میں مذکور ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد اہل کوفہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اپنے امیر ابن مرجانہ فارسیہ کے پاس لے گئے تھے۔ ابن مرجانہ سر مبارک کو ایک طشت میں رکھا اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو اس کے منہ پر مارنے لگا، یہ بد تہذیبی دیکھ کر سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ رہ نہ سکے اور فرمانے لگے: ’’یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔‘‘[2] ابن زیاد کے بعد سر مبارک کہاں لے جایا گیا؟ اس میں زبردست اختلاف ہے۔ چنانچہ جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ ابن زیاد نے سر مبارک یزید کے پاس شام بھیج دیا تھا اور یزید ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو سر مبارک پر مارنے لگا جس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اٹھ کر یزید کے اس فعل پر نکیر کی، تو یہ جملہ روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتیں ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان روایات کے ضعیف ہونے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ
Flag Counter