دوسری بحث:
بیعت یزید، شوریٰ، عقیدۂ مظلومیت اور عاشوراء
ذیل میں ان تمام نکات پر علی الترتیب روشنی ڈالی جاتی ہے:
بیعتِ یزید اور شوریٰ:
اس وقت کے حالات اکابر اہل اسلام کے اجتہاد کے مطابق یزید کی بیعت کے سوا کسی دوسرے صورت کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس لیے ان حضرات نے امیر المومنین سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی وفات کے بعد کسی فتنہ گر کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقعہ فراہم نہ کیا۔ جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو خلافت سونپنے کا اقدام صرف اور صرف امت کو اختلاف و افتراق سے بچانے کے لیے کیا تھا تاکہ امت کی وحدت برقرار رہے جس کا نفع اور مصلحت سب کو پہنچنی تھی۔ چنانچہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اے اللہ! اگر تو میں نے یزید کو اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ میں نے اس میں اس امر کی اہلیت دیکھی ہے تو اسے میری امید کے مطابق فضل و اہلیت کے اس مقام تک پہنچا دے اور اس بارے اس کی مدد فرما اور اگر میں نے ایسا صرف ایک باپ کی اولاد پر شفقت و محبت کے جذبہ سے مجبور ہو کر کیا ہے اور جو امر میں نے اسے سونپا ہے یہ اس کا اہل نہیں تو اسے اس امر تک پہنچنے سے قبل ہی موت دے دینا۔‘‘[1]
اہل باطل کے شکوک و اوہام کے تار عنکبوت کو تار تار کرنے کے لیے اور سنت نبویہ پر پے درپے حملہ کرنے والوں کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہم نے اس نازک میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ اور اس کی جرأت کی ہے وگرنہ ان مصائب پر قلم اٹھانے سے رکنا کس قدر آسان ہے جو گزر چکے اور وہ لوگ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے، اور وہی ان باتوں کا فیصلہ کرنے والا حقیقی حاکم ہے جو دلوں کے بھید اور آنکھوں کی خیانت تک جانتا ہے۔ شاید ہماری یہ چند توضیحات خوابِ غفلت میں پڑے مسلمانوں کو بیدار کر دیں اور وہ بچ سکیں ۔ یاد رکھیے! کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو دو دفعہ قتل کیا گیا اور تم دونوں دفعہ سوتے ہی رہ گئے۔ ایک اس وقت جب کوفہ کی غدار تلواروں نے ان کے معصوم خون کو مباح جانا اور دوسرے اس وقت جب حسینی پرچم جس کو لے کر سنت نبویہ کے دفاع کے لیے نکلا کرتے تھے، ان رافضیوں کے ہاتھ میں آ گیا جنہوں نے یہی پرچم لے
|