کر خادمانِ ملت و دین اور حامیانِ کتاب و سنت کا بے محابا خون کرنا شروع کر دیا، ان کی حرمتوں کو پامال کیا، ان کے مسلمات کا انکار کیا اور ان کے عقیدہ و منہج میں زبردست تحریف و تبدیلی پیدا کر دی۔
امام ابن خلدون لکھتے ہیں :
’’جس چیز نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خلافت کے منصب پر اپنے بیٹے یزید کو متمکن کریں نہ کہ کسی اور کو، وہ امت مسلمہ کی وحدت کی مصلحت کی رعایت تھی تاکہ لوگ اہل حل و عقد کی رائے سے ایک بات پر مجتمع ہوں ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’اگر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اور ان کا شرفِ صحابیت کسی دوسرے امر کے گمان سے مانع ہے۔ پھر اس موقع پر اکابر صحابہ کی موجودگی اور ان کا اس بارے میں سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات شک سے بالاتر ہے اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو حق کے معاملہ میں کسی مداہنت یا سہل انگاری کا شکار تھے۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اس گمان کے قائم کرنے سے مانع ہے۔‘‘[1]
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اس خوف کی بنا پر خلافت کے لیے نام زد کیا تھا تاکہ مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا نہ ہو، کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بنو امیہ کسی اور کے خلیفہ بنائے جانے
پر راضی نہ ہوں گے، چنانچہ اگر خلافت کسی اور کے حوالے کی گئی تو بنو امیہ اس سے ضرور اختلاف کریں گے، مزید یہ کہ بنو امیہ یزید کے بارے میں نیک گمان رکھتے تھے، کسی کو یزید کی صالحیت میں شک نہ تھا اور نہ ہم جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ گمان کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک غیر صالح شخص کو امت مسلمہ کی امارت و خلافت جیسے اہم ترین منصب کے لیے نام زد کیا تھا۔‘‘[2]
ابن خلدون لکھتے ہیں :
’’مامون ہی کو دیکھ لیجیے کہ جب اس نے علی بن موسیٰ بن جعفر الصادق کو ولی عہد بنایا اور ان کا نام الرضا رکھا، تو بنو عباس نے کیسے اس پر انکار کیا اور اس کی بیعت توڑ کر مامون کے چچا ابراہیم
|