Maktaba Wahhabi

45 - 441
امر صائب یہ ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے انصار سب تیرے حکم کے سامنے سر جھکا دیں اور ان کے بارے میں تیرا ہی فیصلہ نافذ العمل ہو۔[1] جب یہ خبر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ملی تو انہوں نے اس مطالبہ کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا: و اللہ میں کبھی ابن زیاد کے سامنے سر نہیں جھکاؤ ں گا۔[2] پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم میری اطاعت سے آزاد ہو۔ مگر انہوں نے آپ کا ساتھ دینے اور شہادت تک آپ کے ساتھ مل کر لڑنے پر اصرار کیا۔[3] ابن زیاد نے مقام نخیلہ[4] کی طرف روانگی کے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے عمرو بن حریث کو کوفہ کا عامل مقرر کیا اور پل پر سے لوگوں کے گزرنے پر پابندی لگا دی، کیونکہ اسے معلوم ہوا تھا کہ کوفہ سے بعض لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف چوری چھپے جانا شروع ہو گئے ہیں ۔[5] سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر منتج ہونے والی فیصلہ کن جنگ: محرم ۶۱ ہجری جمعہ کی صبح حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو منظم کیا اور جنگ کے لیے کمربستہ ہو گئے، اس وقت ان کے ساتھ بتیس سوار اور چالیس پیادے تھے۔ آپ نے میمنہ پر زہیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مظاہر کو مقرر کیا اور اپنا علم اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور خیموں کو پشت پر رکھا، آپ نے حکم دیا کہ خیموں کے نیچے لکڑیاں اور بانس جمع کر کے ان میں آگ لگا دی جائے۔ خوف یہ تھا کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور ہو سکتا ہے۔[6] دوسری طرف عمر بن سعد نے بھی اپنے لشکر کو منظم کیا اس نے حر بن یزید کی جگہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا ملے تھے میمنہ پر عمرو بن حجاج زبیدی کو مقرر کیا اور میسرہ پر شمر بن ذی الجوشن کو۔ رسالہ غررہ بن قیس کو دیا اور پیادہ فوج کو شبث بن ربعی کے حوالے کیا اور پرچم اپنے آزاد کردہ غلام زوید کو دیا۔[7] پھر فوراً ہی جنگ شروع ہو گئی۔ آغاز میں جنگ مبارزت کی صورت میں لڑی گئی۔ جنگ کے آغاز میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس میں شامل نہ ہوئے اس دوران میں آپ کے ساتھی آپ کا دفاع کرتے رہے۔ جب وہ شہید ہو گئے تو دشمن کے لشکر سے کسی کو بھی آپ کو شہید کرنے کی جرأ ت نہیں ہو رہی تھی۔ عمر بن سعد کے لشکر کا ہر فرد آپ کو شہید کرنے سے ڈرتا تھا مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کسی نرمی کا مظاہر نہ کیا۔ آپ ان کے ساتھ بڑی دلیری کے ساتھ لڑتے رہے۔ ایسے میں شمر بن ذی الجوشن کو یہ خوف لاحق ہوا کہ حالات اس کے
Flag Counter